کہانی سنو اک جنگل کی!


یہ کہانی جو آپ میرے توسط سے سننے جا رہے ہیں کہنے کو تو ایک کہانی ہے مگر اپنے اندر کسی شانت جھیل کی طرح بے پناہ جہتیں اور وسعتیں سمیٹے ہوئے ہو، جس کی گہرائی ناپی جائے تو ناپنے والوں کا سراغ نہ ملے، جس کی اندر غوطہ زن ہوا جائے تو اندر کا منظر دیکھ کر اوسان جاتے رہیں مگر خیر یہ منحصر ہے آپ پہ کہ آپ محض سطحی منظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا اس کی گہرائیوں تک رسائی کا نقصان اٹھاتے ہیں

یہ کہانی دراصل ایسے جنگل کی ہے جو بلند و بانگ پہاڑی سلسلوں کے بیچوں بیچ، وادیوں، مرغزاروں، گلستانوں، صحراؤں اور پر کیف چراگاہوں کا محیط ہے۔ اس جنگل میں کئی انسانی نسلیں مختلف قبائل اور کثیرالانواع ثقافتوں کی مظاہر تہذیبوں سے وابستہ رہے۔ کچھ قبائل اس خطے کو خدا کی سرزمین سے منسوب کرتے اور مانتے تھے کہ یہ خدا نے اپنے رہنے کے لئے بنائی ہے اور یہاں جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ خدا کی مرضی ہے جس میں کسی بھی قسم کی چھیڑ خدا کے خلاف جنگ ہو گی جس کا خطرہ وہ چاہ کر بھی مول نہیں لے سکتے تھے۔

اور اسی عقائد کی روشنی میں گاہے بگاہے اس جنگل کے چین میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اس جنگل کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں رہنے انسان آٹے میں نمک برابر تھے اور ہمیشہ یہاں جانور حکومت کرتے تھے۔ جانوروں کی جہاں تعداد زیادہ تھی وہاں ان میں کشید فطری طاقت اس تسلط کو برقرار رکھنے میں ایک اہم پہلو رہی ہے۔ چونکہ یہاں بسنے والے انسانی قبائل ہر طرح کی ضروریات سے سہل تھے تو انھوں نے کبھی جانوروں کے سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا اور وہ اپنی اسی کیفیت زنداں کو امن کی دلیل کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔

وقت گزرتا رہا، موسم بدلتے رہے اور کئی سورجوں نے زوال دیکھا۔ مگر جنگل میں جانوروں کی حکومت برقرار رہی۔ گئے وقتوں میں ذرائع ابلاغ اتنے کار آمد تھے نہ ہی انسانوں کو اپنے جیسے دوسرے قبائل کی خبر گیری میں کوئی دلچسپی رہتی۔ بس کبھی کبھار جنگل میں بودوباش کے حصول کے لیے نکلتے تو انسانی خون اور لاشے دیکھ کر گھبرا جاتے۔ ظاہر ہے تشویش لاحق تھی مگر کبوتر مانند آنکھ بند کیفیت میں زندگی گزار رہے کہ چلو یہی تقدیر ہے۔

وقت نے کروٹ لی جانوروں کی تعداد کم پڑنا شروع ہوئی اور انسان اپنی بہتر افزائش کے باعث چوگنے ہوتے گئے۔ انسانوں کا میل ملاپ بڑھا اور خبر گیری کے ذرائع بھی ترقی پا گئے۔ لیکن جنگل کا قانون تو پرانا ہی تھا تو روز بروز ہر سو انسانی جسم کے تراشے دیکھتے دیکھتے اب انسانوں میں خوف کی فضا پھیل گئی۔ کچھ قبائل نے اندر کھاتے جانوروں کے خلاف سہمی سہمی سی بغاوت کا مقدمہ رکھا اور ڈرتے ڈرتے باقی قبائل تک یہ پیغام پہنچایا۔

جانوروں کو اگر کہیں کوئی بھنک اٹھتی تو وہ ایسی کسی سرگرمی کے حامل پورے قبیلے کو نیست و نابود کر دیتے اور وجہ کے طور پر جنگل میں اعلان کروا دیتے لے کچھ بیرونی حملہ آوروں کے پشت پناہ گروہ مار دیے گئے ہیں۔ باقی ماندہ انسان پھر دبک جاتے اور اس کار خیر کو انجام دینے والے جانوروں کو خراج تحسین پیش کر کر کے اپنا باغی نہ ہونا ثابت کرنے میں عمر گنوا بیٹھتے۔

وقت تیزی سے بدل رہا تھا، اردگرد کے خطوں سے بھی لوگ جنگل کا رخ کرنے لگے لیکن ان کا رابطہ بھی جانوروں نے صرف خود تک محدود کر رکھا تھا۔ جنگل تھا تو ظاہر ہے قانون بھی جنگل کا ہی تھا۔ کسی کو کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی کہہ کر لٹکا دیا جاتا اور نظام چلتا رہتا۔ انسان کہنے کو انسان مگر فطرت میں خود بھی جانوروں سے کم نہیں تھے۔ ایک دوسرے سے نفرت کرتے اور جانوروں کے تسلط میں معاون رہتے۔ گردونواح کے خطوں کے انسانوں نے کئی سالوں پہلے ہی جانوروں کو بیرکوں تک محدود کر دیا ہوا تھا اور ان سے جانوروں سا سلوک برتا جاتا تھا۔

لیکن یہ جنگل، یہیں آباد انسانوں کے مطابق خدائی سرزمین تھی لہذا یہاں گنگا الٹی بہتی تھی اور قانون بھی سارے کے سارے خدائی تھے۔ باہر کے خطوں کے لوگوں نے بالآخر اس کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہاں حاکم جانوروں کو ڈرا دھمکا کر اپنے زیر کیا لیکن یہاں کے باشندوں کو ان کے تسلط سے آزاد نہیں کیا۔ باہر کے انسان جو خود بھی اندر سے جانور صفت تھے، جنگل کے وسائل لوٹ لوٹ کر اپنے خطوں میں لے جاتے اور نظام جو تھا ہی نہیں اس میں بھی بگاڑ بڑھتا گیا۔

وسائل کم ہوئے، انسان زیادہ اور جانور مزید کم ہوتے گئے تو جنگل کی بادشاہت جانوروں کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دینے لگی جو کہ جانوروں اور دوسرے خطے والے انسانوں کے حق میں نہیں تھی۔ اردگرد خطے والوں کے منسلک مفادات بھی بگاڑ کا شکار ہونے لگے تو انھوں نے بالآخر جانوروں کو سمجھا بجھا کر آزادی کی تحریک اٹھائی اور انسانوں کو زبان نسل، مذہب اور قبائل کی بنیاد پر تقسیم کر دیا لیکن معاہدہ طے پایا کہ چونکہ جانور طاقت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں تو انسان جب تک اپنے ملک کو کوئی سمت نہیں دے دیتے تب تک سرحدوں کی حفاظت داخلی و خارجی معاملات جانوروں کے سپرد رہیں گے۔ اب ظاہر ہے اپنی سمجھ بوجھ سے آزادی ملی تھی نہ ہی جنگل کے انسان اتنے آزادی پسند تھے کہ کوئی انسانی حقوق کی بنیاد پہ فیصلہ کرتے، سو خوشی خوشی انھوں نے معاہدے پہ دستخط کر دیے۔

کہنے کو آزاد انسان اب ہر چوتھے روز اپنے معاملات لے کر جانوروں کے دربار میں حاضری لگواتے اور انھی کی منظور نظر سفارشات پہ عدالتوں کا ایک ظاہری نظام عمل میں لایا گیا مختلف ادارے بنائے گئے جن کے اول اول کے سربراہان جانور خود تھے۔ انسانوں کی موت کا کھیل اسی طرح جاری رہا اور اب کی بار ہر ایک تباہی کا ملبہ بھی خود انسانوں کے سر موند دیا جاتا الٹا یہ کہ جانور اپنی مداخلت سے معاملات کو عارضی طور پر اپنے ہاتھ لے کر خرد برد کر دیتے۔

اس ساری بساط کا فائدہ یہ ہوا کہ جانوروں نے اس عجیب و غریب انسانی مملکت عرف خدائی سرزمین پہ اپنی آسائشوں کے نت نئے سامان کر لیے ایسے ایسے کہ انسان بھی دنگ رہ جائیں۔ اب یہ جنگل نہیں تھا لیکن قانون وہی اور انسانوں کے حالات پہلے سے بدتر۔ جانوروں نے تمام وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا، سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان کے محلات والی بستیوں میں انسانوں کو جانے کی قطعی اجازت نہیں تھی ہاں اگر جانوروں کی مرضی ہوتی تو اپنی تگ و دو کو انجام دینے کے لیے مختلف طور طریقوں سے منتخب شدہ انسان بھرتی کر لیتے جس پہ وہ شاد باد رہتے۔

بھرتی کیے گئے انسان اپنے ہم نفسوں سے وہی سلوک کرتے جو بھرتی ہونے سے پہلے ان سے جانور کیا کرتے تھے۔ تحریکیں اٹھتی رہتی اور نعرے بدل بدل کر آزادی کا علم بغاوت بلند کیا جاتا رہا۔ لیکن سب تحریکیں اور ان کے اصل ثمرات جانور ہی اٹھاتے بلکہ ان کی پشت پناہی سے ہی سارے کار خیر انجام دیے جاتے۔ انسان اپنی ہی لاشیں اٹھاتے رہتے، بلکتے رہتے، مرتے رہتے اور جانوروں کی بلائیں لیتے رہتے۔ اب تو حالات اس قدر خائف ہو چکے کہ انسانوں کی تمام تر بغاوتوں کا مقصد صرف اور صرف اپنے حاکم جانوروں کی نظر حاصل کرنا ہو گیا تھا۔

دنیا میں موجود باقی ماندہ انسانوں نے خود کو نت نئے فلسفوں سے آراستہ کر کے زندگی کو ہوش ربا جہتیں عطا کر دی مگر اس جنگل کے انسان جانوروں کے خلاف صحیح معنوں میں بغاوت کرنے والوں کے خود اپنے ہاتھوں سے گلے کاٹ دیتے اور خدائی سرزمین پہ خدا کا قانون نافذ کرنے کا جشن مناتے۔ یہ انسان جنھیں انسان کہنا بھی انسان کی توہین ہے شاید اپنے اندر کا انسان بہت پہلے بلی چڑھا چکے ہیں اور جنگل کے قانون کو خدا کا فیصلہ سمجھتے ہیں۔ اسی خدا کے فیصلے اور خوشنودی میں انسانوں نے مابعد جدیدیت کی صدی میں جنگل میں ہنسی خوشی رہنا سیکھ لیا اور کہانی ختم ہوئی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments