رام نام ست ہے: ایک سچے واقعہ پہ مبنی افسانہ


حقے کے دھوئیں نے اور باہر سے آتی ہوئی لو نے اس گول خوبصورت کمرے کی حدت میں اضافہ کر دیا تھا۔ ابھی حیدر علی نے جو کچھ بھی کہا، اس سوال سے دو تین افراد انتہائی پریشان ہو گئے تھے۔ حیدر علی کے سامنے بیٹھا ہوئے کرتے اور پتلون میں ملبوس قدرے فربہ نوجوان بولا۔

مانا کہ وہ ہمارے ساتھ رہے، کھائے پئے لیکن ہمارا دھرم تو اس سے مختلف ہے پھر ہم کیسے لال کا اس کے دھرم کے مطابق کریا کرم کریں!

اس کے ساتھ بیٹھا ہوا گبرو جوان جو مسلسل اپنی مونچھوں سے کھیل رہا تھا، گردن اکڑا کے کہنے لگا۔

صدیوں سے یہ لوگ اس گاؤں میں رہتے آئے ہیں۔ تین پیڑیوں سے تو میں انہیں جانے ہوں۔ کچھ کرنا تو ہمیں ہی ہے مگر اس کا اب کیا کریں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اسے اپنے طریقے سے ہی دفنا دیتے ہیں۔ ویسے بھی یہ اور اس کے گھر والے ہمیشہ عید شبرات ہمارے ساتھ ہی منائے ہیں۔ ہم نے اس کو ہمیشہ اپنا ہی سمجھا ہے غیر نہیں جانا، پھر کیا حرج ہے اس کو اپنی طرح دفنانے میں! میں تو اس کے بالکل خلاف ہوں ایک میت کے لیے ہم اپنا دھرم چھوڑ دیں، نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔

اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک بڑی عمر کے مرد نے نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں بھی یہی کہتا ہوں حرج تو کچھ نہیں ہے۔

حیدر علی نے پگڑی کو ذرا سا پیچھے کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ اے ساجد، ذرا سوچ تو کیا کہہ رہا ہے۔ ہم اس کے جدی پشتی پڑوسی ہیں۔ کرونا سے مر گیا ہے۔ اب اس کا کریا کرم کرنے والا کوئی نہیں تو کیا ہم اس کی میت کو اس کے دھرم سے جدا کر دیں! میں لال کپور کے ساتھ یہ نہیں ہونے دوں گا۔ اس کی بیوی کو کیسے چین آئے گا! اس کے بچے بڑے ہو کر کیا سوچیں گے! ہم اس کے بیوی بچوں پہ یہ ظلم نہیں کر سکتے۔

حیدر علی کے بالکل سامنے بیٹھے ایک بزرگ نے حقے سے کش لیتے ہوئے کہا۔ تم لوگ کیسی تفرقہ ڈالنے والی باتیں کر رہے ہو۔ لال اور ہم نے اس گاؤں میں ہمیشہ مل کر ہولی کھیلی، دیوالی کے دیوے جلائے، شبرات کے پٹاخے پھوڑے، عید پہ گلے ملے۔ اب وہ مر گیا تو آنکھیں پھیر لیں۔ تم نوجوان لوگ پتا نہیں شہر سے کیا سیکھ آئے ہو!

حیدر علی نے دونوں نوجوانوں کو گھور کر دیکھا۔ یہ ہمارا فرج بنے ہے کہ اسے شمشان گھاٹ لے کر جائیں، میت میں پہلے سے ہی سڑان اٹھے ہے۔ اس کا فوراً بند و بست کرنا ہے۔

ساجد پھر آنکھیں سکیڑتے ہوئے بولا۔ یہ لوگ مسلمان کیوں نہیں بن جاتے، سارا جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم۔ بس ایک ہی تو ہندو گھرانا ہے اس گاؤں میں۔

حیدر علی نے حقے کی نالی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا۔

اے کھلنڈرے! اس گاؤں میں آج تک دھرم کے نام پہ کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ جھگڑا تو اب تم شروع کر رہے ہو۔ سب کان کھول کر سن لیں۔ اس گاؤں میں دھرم بدلنے کی کوئی بات نہیں ہو گی۔

پہلے نوجوان نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔ حیدر جی، شمشان گھاٹ یہاں سے دو گھنٹے دور ہے۔ کیسے جائیں گے وہاں اس لو میں؟

حیدر علی نے اس نوجوان کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
ہم لال کپور کے لئے اتنا تو کر سکتے ہیں صرف ایک بار۔

حیدر علی نے نیلے رنگ کے لہراتے ہوئے پردے کو دیکھا جیسے وہ بھی حیدر علی کو اپنی رائے دینا چاہتا ہے۔ پھر ایک دم اس کا چہرہ اور سخت ہو گیا۔

جس کو نہیں جانا وہ گھر چلا جائے۔ ہم جلدی سے اس کی ارتھی تیار کر کے چلتے ہیں۔
کمرے میں بیٹھے اکثریت نے اس کی حمایت میں گردن ہلائی۔
سامنے بیٹھے ہوئے بوڑھے شخص کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے۔
اور یہ کریا کرم کا خرچہ؟
ہم سب مل کر کریں گے۔ جو جتنا چاہے دے دے۔
پھر حیدر علی نے کھنکھارتے ہوئے کہا۔

چلو اب اٹھو اور اس کی ارتھی تیار کرو، اس کو اٹھا کر نندی پور چلو۔ وہاں اس کی چتا بنے گے۔ پھر شمشان گھاٹ والے گھی ڈال کر چتا کو آگ لگا دیں گے اور راکھ کو دریا کی نذر کر دیں گے۔

تھوڑی ہی دیر بعد تپتی ہوئی دھوپ میں پچیس تیس لوگ اپنی اپنی ناک ڈھکے ہوئے ارتھی کو اٹھائے گنگا کی طرف لے جا رہے تھے اور کورس کی طرح زیر لب گا رہے تھے ”رام نام ست ہے رام نام ست ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments