جبار صاحب!


قافلہ قافلہ جاتے ہیں چلے کیا کیا لوگ
میر غفلت زدہ حیران سے کیا بیٹھے ہیں

آپ کے ٹیلی فون کی کانٹیکٹ لسٹ میں کچھ نام ایسے لوگوں کے بھی ہوتے ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، جوں جوں عمر بڑھتی ہے، اس لسٹ میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، ان ناموں کو لسٹ سے ڈی لیٹ کرنے کا حوصلہ ہم تو کبھی نہیں کر پائے، فون میں کسی کا نمبر ڈھونڈتے ہوئے بچھڑ جانے والے دوستوں کے نام سامنے آ جاتے ہیں، پچھلے ہفتے افتخار عارف صاحب کو فون کرنے لگا تو عارف نظامی صاحب کا نام نظر آیا، کل ڈاکٹر عابد کو کال کرنے لگا تو عابد فاروق (باغی) اور عابد علی (ایکٹر) کے نام سامنے آگئے، یادوں کے چراغ جلنے لگے،روشنی ہو گئی۔ بچھڑنے والوں کی اس فہرست میں پچھلے ہفتے ایک اور نام کا اضافہ ہوگیا ہے، چوہدری عبدالجبار ، جن کا نام میرے فون میں ’Chairman‘ محفوظ ہے۔

جبار صاحب پاکستان میں کمرشل ٹی وی کے بانیوں میں شامل نہیں تھے، وہ پاکستان میں کمرشل ٹی وی کے بانی تھے! میرا ان سے تعلق دو عشروں سے زیادہ پر پھیلا ہوا تھا۔ تقریباً دس سال صحافت کرنے کے بعد میں 2001 میں چیوننگ اسکالرشپ پر ٹیلی وژن پروڈکشن میں ایم اے کرنے برطانیہ چلا گیا، ڈگری کے ساتھ ہی بی بی سی اردو لندن میں پروڈیوسر کی نوکری مل گئی، لیکن دل ہجرت پر آمادہ نہیں تھا۔ اسی دوران زمانہ طالب علمی کے ساتھی ڈاکٹر مصدق ملک سے ملاقات ہوئی، ان سے درپیش دبدھا کا ذکر کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ سید طلعت حسین سے بات کرتے ہیں جنہوں نے انہی دنوں پرائم ٹی وی میں شمولیت اختیار کی تھی، ملاقات ہوئی تو طلعت نے کہا کہ وہ پرائم ٹی وی کے مالک سے میری میٹنگ طے کروا دیتے ہیں آگے جو اللہ کو منظور۔ اگلے ہی دن ملاقات طے پا گئی، اور میں بھابڑہ مارکیٹ لاہور میں واقع پرائم ٹی وی کے دفتر میں ٹی وی کے چیئرمین جبار صاحب سے ملنے پہنچ گیا۔ جبار صاحب کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا (یہ مجھ پر بعدمیں کھلا کہ اس دروازے کے بند ہونے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ جبار صاحب دفتر میں نہیں ہیں) ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، میں نے انہیں متاثر کرنے کے لیے بی بی سی کی جاب آفر کا دستاویزی ثبوت ان کے سامنے بڑھایا، انہوں نے اسے پڑھنا تو درکنار، ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں۔ میرے دل میں تھا کہ مجھے ایگزیکٹو پروڈیوسرکی نوکری مل جائے، میں نے اس کا اظہار جبار صاحب سے کیا، ان کا جواب میں کبھی نہیں بھلا سکا، فرمانے لگے کہ ’ہمارے پاس تو اس وقت ٹی وی کے سربراہ کی سیٹ خالی ہے‘۔ مجھے اپنی سماعت پر شک ہوا، لیکن انہوں نے اپنی پیش کش پھر دہرائی، سچی بات ہے کہ میں سربراہ کے طور پر ٹی وی پر پہلی نوکری کرنے میں چھپے مضمرات سے گھبرا گیا، مختصراً یہ کہ میں تین دن انکار کرتا رہا اور آخر میں نے ’ہار‘ مان لی اور پرائم ٹی وی (UK-USA) کا ہیڈ بن گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جبار صاحب کا فیصلہ کرنے کا طریقہ ہی یہی تھا، وہ اپنا ذہن ایک دم بنا لیتے تھے، اور بڑے سے بڑا فیصلہ چٹکیوں میں کر ڈالتے تھے۔

سال ہا سال میں نے جبار صاحب کے اداروں میں کام کیا، اس دوران بہت سے نشیب و فراز آئے، لیکن کبھی کسی ایک موقعے پر بھی مجھے جبار صاحب نے یہ احساس نہیں دلایا کہ میں ان کے ہاں ملازمت کرتا ہوں، برابری کی سطح پر بات کی، بلکہ پروفیشنل معاملات میں ہمیشہ میری رائے کو فوقیت دی۔

اب یہ قصہ بھی سن لیجیے کہ جبار صاحب پاکستان میں کمرشل ٹی وی کے بانی کیوں سمجھے جاتے ہیں۔ایک زمانے میں جبار صاحب ایک تمباکو کمپنی سے کچھ پیسے لے کر والی بال، کبڈی اور پہلوانی جیسے کھیلوں کے مقابلوں کا اہتمام کیاکرتے تھے،جبار صاحب کے ذہن میں کہیں سے یہ بات آ گئی کہ اگر یہ مقابلے کرکٹ اور ہاکی کی طرح ٹی وی پردکھائے جائیں تو اچھا منافع کمایا جا سکتا ہے۔پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے درجنوں ناکام چکر لگانے کے بعد آخر ایک دن وہ ایم ڈی سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہو
گئے، جبار صاحب نے ایم ڈی کو پیش کش کی کہ جس ٹائم سلاٹ میں پی ٹی وی ایک روپیہ بھی نہیں کماتا، اگر انہیں اس سلاٹ میں علاقائی کھیل دکھانے دیے جائیں تو وہ پی ٹی وی کو ایک معقول رقم کما کر دے سکتے ہیں۔ایم ڈی صاحب مان گئے، اور یوں جبار صاحب نے پاکستان میں پہلی دفعہ سرکاری ٹی وی پرایک گھنٹہ خرید کر پرائیویٹ ٹی وی کی بنیاد رکھی۔جب بھی ان کے دفتر جانا ہوتا وہ کاغذ پر کچھ ہندسے لکھ رہے ہوتے تھے، میں جانتے بوجھتے ہر دفعہ ان سے پوچھتا تھا ’کیا کر رہے ہیں‘ اور وہ ہمیشہ کہتے ’بس اپنی جمع تفریق کر رہا ہوں‘۔ اب جبار صاحب اپنے مالک کے حضور پیش ہو چکے ہیں، اور ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ جمع تفریق میں نرمی برتی جائے، آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments