”غلطی ہو گئی“ کا احساس


رواں ہفتے کے آغازسے فریاد کئے چلا جا رہا تھا کہ تعیناتی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کی راہ نکالی جائے۔ مقصد اس فریاد کا کسی خاص شخص کی حمایت نہ تھی۔ذاتی طور پر ”وہاں“ سے ریٹائر ہوئے کسی جونیئر ترین افسر کو بھی نہیں جانتا۔ جس عہدے پر تعیناتی کا انتظار ہے وہاں تک رسائی کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ملکی سیاست کا مگر دیرینہ شاہد ہوں اور 1991ء سے ”تعیناتی“ کے مراحل کے دوران جن ہیجانی کیفیات کا مشاہدہ کیا انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے ہی فریاد کو مجبور ہوا کہ مذکورہ تناظر میں جلد فیصلہ کر لیا جائے۔ غیر ضروری تاخیر معاملات کو الجھانا شروع ہوجائے گی۔حکومت نجانے کیوں 18 نومبر کے انتظار پر ڈٹی رہی۔

اس کے ذریعے غالباََ یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے عہدے پر نہایت اعتماد سے براجمان ہیں۔ ”انہونی“ کے خوف میں مبتلا نہیں۔مصر سے وطن لوٹنے کے بجائے وزیراعظم مگر لندن میں مقیم اپنے بڑے بھائی سے ملنے چلے گئے۔ ان سے ملاقات کے لئے ملک محمد احمد کو بھی طلب کرلیا گیا۔ ملک صاحب دھیمے مزاج کے شائستہ شخص ہیں۔ نسبتاً جوان بھی ہیں۔ فی الوقت صوبائی سطح کے رہ نما تصور ہوتے ہوئے بھی لیکن ”تگڑے لوگوں“ تک رسائی کی شہرت رکھتے ہیں۔ان کی لندن طلبی نے یقینا یہ پیغام دیا کہ پنجابی محاورے والی ”گوٹ“ کہیں پھنسی ہوئی ہے۔

لندن میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران جو باتیں ہوئیں ان کی بابت قطعاًبے خبر ہوں۔ ”اندر کی خبر“ رکھنے کے دعوے داروں نے اگرچہ روایتی اور سوشل میڈیا پر چسکہ بھری داستانیں پھیلارکھی ہیں۔ بنیادی تاثر ان داستانوں نے یہ پھیلایا کہ ”مشاورت“ تسلی بخش انجام تک پہنچنے میں دیر لگا رہی ہے۔ اس تاثر نے عمران خان صاحب کو جارحانہ انداز میں ”بھگوڑے اور مجرم“ سے ”حساس ترین“ ریاستی معاملات کی بابت ”مشاورت“ پر سوالات اٹھانے میں آسانیاں فراہم کیں۔ عدالت تک پہنچنے کی دھمکی دے ڈالی۔

دریں اثناء بہت ہی باخبر تصور ہوتے کچھ صحافیوں نے اپنے تئیں ”تعیناتی کے قابل“ افراد میں سے اپنی خواہش کے مطابق چند لوگ بھی چن لئے۔ ان کے نام اچھلے تو کہانی یہ بھی آئی کہ ”وہاں“ کے لوگ تو فلاں فلاں کی تعیناتی کے خواہاں ہیں۔ بالآخر پنجابی کے محاورے ”نہ تہاڈی گل نہ ساڈی“ پر ہی عمل کرنا پڑے گا۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی۔ تازہ ترین ہلچل ایک موقر انگریزی روزنامے میں شائع ہوئی ”خبر“ نے مچا رکھی ہے۔ بڑے اہتمام سے چھپی اس ”خبر“ میں دعویٰ ہوا کہ حکومت آرمی ایکٹ میں جلد از جلد چند ترامیم متعارف کروانے جا رہی ہے۔ ان ترامیم کا مقصد وزیراعظم کو یہ اختیار فراہم کرنا ہے کہ وہ چاہے تو ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچے کسی بھی افسر کی مدت ملازمت میں توسیع کر دے۔

مذکورہ ”خبر“ نے جو ہیجان برپا کیا اسے مزید بھڑکاتے ہوئے ہمارے ”ذہن سازوں“ نے چند کلیدی حقائق پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد جو قانون بنتا ہے صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد ”ایکٹ (Act)“کہلاتا ہے۔اس کے مسودے میں کسی لفظ کو تبدیل کرنا تو دور کی بات ہے فل سٹاپ یا کومے کی غلطی درست کرنے کے لئے بھی دونوں ایوانوں سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ میں یہ کالم 17 نومبر کی صبح اٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ آرمی ایکٹ میں جن تبدیلیوں کا ذکر ہو رہا ہے انہیں بروئے لانے کے لئے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس الگ الگ بلانا ہوں گے۔ قومی اسمبلی سے قواعد کی معطلی کے بعد جن ”تبدیلیوں“ کا ذکر ہو رہا ہے موجودہ حکومت ہنگامی حالات میں بآسانی منظور کروا سکتی ہے۔ سینٹ میں تاہم تحریک انصاف بھاری بھر کم تعداد میں موجود ہے۔ وہ ”تبدیلیوں“ کو فوری طورپر منظور کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ان کی مزاحمت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ حکومت ڈھٹائی سے ”تبدیلیاں“ منظور کروا لیتی ہے۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بھی تاہم مجوزہ ترامیم کے ساتھ تیار ہوا قانون حتمی منظوری کے لئے صدر مملکت کو بھیجنا ہو گا۔ عارف علوی اس پر دستخط کرنے کے بجائے پاس ہوئے قانون کو پارلیمان کے ازسرنوغور کی تجویز کے ساتھ واپس بھجوا سکتے ہیں۔ ایسا فیصلہ کرنے کے لئے آئین صدر مملکت کو پندرہ دن کی مہلت فراہم کرتا ہے۔”تعیناتی“کے عمل کو مگر 29 نومبر تک مکمل ہونا لازمی ہے۔ مجھے ہرگز سمجھ نہیں آ رہی کہ جن ”ترامیم“ کی دہائی مچائی جا رہی ہے حکومت انہیں کیسے اس تاریخ سے قبل صدر مملکت کے دستخطوں سے ”ایکٹ“ میں بدل سکتی ہے۔ قانون سازی کے عمل کی مبادیات سے قطعاََ نابلد شخص ہی آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم والی ”خبر“ کو سنجیدگی سے لے سکتا ہے۔ میری بدقسمتی کہ 1985ء سے مسلسل اس عمل کو مشاہدہ کر رہا ہوں۔

2019ء میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو ہمارے ایک بہت ہی دبنگ تصور ہوتے منصف جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے حیران کن انداز میں گنجلک بنا دیا تھا۔ معاملہ سلجھانے کے بجائے اسے بالآخر پارلیمان کے سپرد کر دیا۔ پارلیمان میں لیکن بہت شاطر اور تجربہ کار سیاستدان بھی موجود تھے۔ فوراً سمجھ گئے کہ انہیں پھنسانے کا جال پھینکا گیا ہے۔ شہباز شریف صاحب نے کھوسہ صاحب کے مطلوبہ قانون کا مسودہ تیار ہونے سے قبل ہی اس کی ”غیر مشروط“ حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان کے فیصلے سے ہکا بکا ہوئی پیپلز پارٹی نے تھوڑے انتظار کے بعد خاموشی سے تیار کئے قانون کے مسودے میں چند ”ترامیم“ متعارف کروانے کی کوشش کی۔ بالآخر آصف علی زرداری سے براہ راست روابط ہوئے اور حکومت سمیت اپوزیشن میں شامل دو جماعتیں یعنی مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے 12 منٹ کی تاریخی عجلت میں اپنے سامنے رکھے مسودے پر فدویانہ انداز میں انگوٹھے لگا دئے۔ مطلوبہ قانون پر انگوٹھے لگانے کے بعد مگر تاسف کا اظہار کرنے لگے۔ ”غلطی ہو گئی“ کے احساس کے ساتھ مذکورہ قانون کو ”وقت آنے پر“تبدیل کرنے کا عہد بھی باندھ لیا۔ جن ترامیم کا ذکر ہو رہا ہے غالباً اس عہد پر عمل درآمد کی خواہش ہے۔ مجوزہ ترامیم کا 29 نومبر تک ہونے والے فیصلے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ قیاس آرائیوں کا مگر طوفان برپا ہو چکا ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments