چہرے تھے جن کے چاند سے – تیسری قسط


جونہی میں ڈائننگ ہال میں داخل ہوا محسوس ہوا جیسے میخانے کا در کھل گیا ہو ڈائننگ ہال میں ایک شور برپا تھا اتنی آوازیں، اتنی زبانیں ہر ملک کے لوگ موجود تھے۔ کیا خواتین، کیا مرد، جوان، بوڑھے، یہ تمام لوگ اپنے اپنے ملک سے تربیت حاصل کرنے جاپان آئے تھے۔ ہر چہرہ اجنبی، ہر چہرہ ایک کہانی لئے ہوئے۔

وقت کی وہاں پر کسی کو فکر نہیں تھی، میز پر ہر طرح کے گلاس اور ہر رنگ کی بوتلیں رکھی تھیں۔ شرکا اپنی پیاس ایسے بجھا رہے تھے جیسے ازل کے پیاسے ہوں۔ پینے والے بھی تھے اور پلانے والے بھی تھے۔ لوگ زیادہ تر خوش گپیوں میں مصروف تھے نعرۂ ہائے الا ماں بھی بلند ہو رہے تھے تو صرف ایسی میزوں سے جہاں ہمارے عرب بھائی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تو ارد گرد موجود سینکڑوں کافروں کے دل دہل جاتے۔ جبکہ دوسری میزوں پر سے ہلکی پھلکی آوازیں اور مسکراہٹیں ابھر رہی تھیں۔ ہر طرف رنگ و نور بکھرا ہوا تھا اور نزاکتیں ایسی کہ کیا انسان اور کیا قلقل مے ہر چیز کانچ کی دکھائی دے رہی تھی کہ اگر اب کے انگڑائی نہ ٹوٹی تو بدن ٹوٹے گا۔

میں ان حشر سامانیوں سے بچتا بچاتا چٹر راج کو تلاش کر رہا تھا۔ مدبر اور سنجیدہ شخصیت را بندر ناتھ ٹیگور کا ہم وطن، ہم زبان اور اس کا بے حد شیدائی تھامیں دیکھنا چاہتا تھا کہ ٹیگور کی روحانیت کا اس پر کتنا اثر ہے۔ دیکھا تو دور ایک کونے میں ایک میز پر اکیلا بیٹھا تھا۔ اس کے آگے جام رکھا تھا میز کے گرد تینوں کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ میں نے سوچا یہ جو سر جھکائے بیٹھا ہے لازماً انگور کی بیٹی سے ہم کلام ہو گا لیکن وہ سنگترے کا جوس نکلا، یہ اور بات ہے جس کا بعد میں پتہ چلا کہ اس پر سنگترے کا جوس بھی شراب کی تاثیر رکھتا ہے اور بیئر کا جام صرف ہاتھ میں لے لے تو لڑکھڑانے لگتا ہے وہ بڑی بڑی آنکھیں کھولے خلا میں گھور نے لگتا اور کبھی سر جھکا دیتا۔ میں دور کھڑا اس کو دیکھتا رہا اور ہنستا رہا۔

ہیلو مسڑ چٹر راج، مجھ سے نہ رہا گیا اور آخر کار اس کے قریب جاکر آٓہستہ سے کہا اس نے نظریں اٹھائیں اور مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اٹھ کر بغلگیر ہو گیا۔ یہ خوشی کی بات تھی کہ ہمارا گروپ ایک تھا۔

اتنے میں سپین سے آئی ایک حسین دوشیزہ نے کرسی سے اٹھ کر رقص شروع کر دیا وہ جسم کی معمولی جنبش سے ہلکی ہلکی سی تھرتھراہٹ پیدا کرتی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جب وہ دونوں ہتھیلیوں سے تالی بجا کر ، پیر کو جنبش دے کر فرش پر مارتی تو ایک ردم پیدا ہوتا۔ عرب بھائیوں نے شیشے میز پر رکھ کر نئی شیریں حاصل کرنے کے لئے اپنے اپنے تیشے اٹھا لئے ایک جیتی جاگتی مائل بہ کرم شیریں ان کے سامنے رقص کناں تھی۔ تھوڑی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا معلوم نہیں پھر کیوں یکایک بند ہو گیا۔

ایران ترکی، عراق، مصر، کے طلبا انڈیا، پاکستان، نیپال، سری لنکا اور ایشیا کے تمام ممالک بلکہ مشرق بعید کے دور دراز جزیروں سے بھی علم کے متلاشی آئے ہوئے تھے اس میں فزکس کیمسٹری بیالوجی، جیالوجی، مٹیلرجی، زراعت، پولیس، جیل، ٹیلیفون، سیاحت، فلم ٹیلی ویژن، میں حیران تھا کہ کون سا مضمون اور موضوع تھا جس کی تربیت کے لئے لوگ نہ آئے ہوئے ہوں۔ اتنے میں انڈیا سے جگدیش ہماری میز کے قریب آیا اور چٹر راج سے آ کر گلے ملا۔

دونوں دہلی میں ملازم تھے۔ جگدیش ٹیلیفون انجنئیر تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ رات وہ جس طیارے سے بنکاک سے سوار ہوئے تھے جاپان ائر لائنز کی اس فلائٹ میں ہیما مالنی اور دھرمیندر بھی سفر کر رہے تھے وہ نیو یارک سے آرہے تھے اور ادھر جاپان میں کسی نئی فلم کی شوٹنگ تھی۔ میں نے بتایا اس میں تو میں بھی سفر کر رہا تھا لیکن مجھے علم نہیں ہوا۔

جگدیش نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا میں نے آپ کو جہاز میں دیکھا تھا۔ کیا آپ پٹھانوں کے پیچھے والی سیٹ پر تھے اور آپ کے ساتھ ایک جاپانی دوشیزہ بھی بیٹھی تھی؟

چٹر راج جاپان میں قدم رکھنے کے معاملے میں ہم سے سینئر تھا میں نے ان سے پوچھا یہ دو دن آپ کیا کرتے رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ زیادہ تر یہاں پر ناشتہ کرنے کے لئے آتا رہا ہے اور باقی وقت اپنے کمرے میں گزارتا رہا ہے میں بہت حیران ہوا کہ اس نے پورے دو دن مراقبے میں ضائع کر دیے ؛ وہ ٹوکیو میں دو دن سے موجود ہیں لیکن اس قدر خوبصورت شہر کی حشر سامانیوں اور جلوہ گری سے محروم رہے۔ میں نے کہا آپ یہاں دنیا دیکھنے آئے ہیں یا تپسیا کرنے؟ چٹر راج ہنسا اب آپ آ گئے ہیں، ”آئندہ نہیں ہو گا“

اتنے میں اعلان ہوا کہ آپ کامن روم میں بیٹھیں وہاں جاپانی عالمی ترقیاتی ادارے جائیکا کی طرف سے آپ کو یہاں پر اخراجات کے لئے کچھ رقوم کی ادائیگی کی جائے گی۔

جب ہم وہاں پہنچے تو دیے گئے وقت کے مطابق ٹھیک 11 بجے بینک کی طرف سے دو مرد اور دو خواتین اندر داخل ہوئے۔ پتہ چلا ان میں سے ایک مرد جائیکا کی طرف سے تھا اور دوسرے مرد و خواتین بینک کی طرف سے۔ جائیکا کی طرف سے جو نمائندہ آیا ہوا تھا اس نے بتایا کہ ہم جائیکا کے مہمان ہیں۔ ہم نے یہاں پر جتنا عرصہ رہنا ہے ہماری تعلیم و تربیت، کا ہماری سیر و تفریح کا ، ہمارے مطالعاتی دوروں کا سارا خرچہ انہوں نے اٹھانا ہے۔ ابتداء میں آپ کو کپڑوں اور کتابوں کی خریداری اور کھانے پینے کے لئے ہم سات لاکھ ین دے رہے ہیں جو آپ کا بارہ دن کا خرچہ ہے۔ آپ موسم کے مطابق کپڑے خریدیں، کتابیں اور سٹیشنری حاصل کریں شہر میں بارہ دن آزادانہ گھومیں پھریں ہماری روایات و رسم و رواج کا مطالعہ کریں۔ آپ کو اس سلسلے میں ہم لیکچر بھی دیں گے۔ آپ ٹوکیو شہر میں بھی گھومیں، اس کے بازار دیکھیں، مارکیٹیں دیکھیں اس کی کلچرل لائف کا نظارہ کریں انہوں نے ہمیں ہر فرد کو 7 لاکھ ین کی رقم لفافے میں بند کر کے دی۔

یہ لوگ ہمیں بہت خوبصورت لگ رہے تھے کیوں کہ انہوں نے ہم کو راتوں رات لکھ پتی بنا دیا تھا۔ مردوں نے نیلے رنگ کے سوٹ پہن رکھے تھے۔ نیلا رنگ جاپانی مردوں کا پسندیدہ رنگ ہے جبکہ خواتین نے جاپانی طرز کے سکرٹ پہنے تھے اور عجیب بات یہ تھی کہ ان کا ہیر سٹائل ایک ہی تھا بعد میں جب ہم ٹوکیو میں گھومے پھرے تو دیکھا کہ یہاں پر تو ہر خاتون کا ایک ہی ہیر سٹائل ہے۔ معلوم نہیں وہ یکسانیت اور ڈسپلن کا شکار تھے یا ابھی وہ ورائٹی کے چنگل میں نہیں آئے تھے۔

انہوں نے تمام شرکا میں بینک ڈپازٹ فارم تقسیم کیے کہ انہیں مکمل کریں ہم تمام فارم بھرنے میں مصروف ہو گئے لیکن عرب بھائی الخالصی کسی اور کام میں مصروف تھا وہ بار بار ساتھ بیٹھی خاتون سے کہتا کہ مجھے فارم کی سمجھ نہیں آ رہی اور وہ اس سے مدد لے رہا تھا میرا عربی بھائیوں کے بارے ایک امیج ہے کہ جہاں تک علم کا تعلق ہے علم ان کی کمزوری نہیں ہے نہ ٹیکنالوجی کا حصول ان کی کمزوری نہیں ہے نہ کائنات کی تسخیر سے ان کا کوئی تعلق ہے، ان کی کمزوری کچھ اور ہے، وہ ہے مغلیہ شہنشاہ بابر کا فرمان کہ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ ۔

پیسے کی فراوانی ان کا شوق ہے جو من و سلوٰی کی طرح ان کو عطا کر دیا گیا ہے ، پیسوں کی فراوانی تو آ گئی لیکن ان کو سماجی شعور نصیب نہ ہوا نہ ان کو ذہنی ارتقاء میسر ہو سکا۔ لیکن ہمیں اس سے کیا ہم کوئی معاشرے کے ٹھیکیدار ہیں؟ ہم تو یہ دیکھیں کہ خالص جاپانی گڑیا سے کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ کھلاڑی کا کھیل کھیلنا ہی قابل غور ہوتا ہے۔

وہ کہہ رہا تھامس، مجھے اپنے نام کے بارے کچھ الجھن ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کیا لکھوں۔ خاتون نے کہا الجھن تو نہیں ہونی چاہیے، ویسے آپ کا نام کیا ہے؟ نام تو میرا نبیل کرما ہے۔ پھر آپ نبیل کرما ہی لکھیں۔ میرا نام الخالصی بھی ہے۔ آپ کے دو نام ہیں۔ ہیں بھی اور نہیں بھی۔ میرا اصل نام نبیل کرما ہے۔ تو پھر اصل نام لکھیں۔ لیکن میں سارے عراق میں الخالصی کے نام سے مشہور ہوں۔ میں نے پریشان ہو کر اس کی طرف دیکھا کہ وہ اتنا الجھا ہوا کیوں ہے۔

وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے آنکھ مار دی۔ پھر مجھے سمجھ آئی کہ وہ اپنے ایجنڈے پر ہے اور اپنے طور ٹھیک چل رہا ہے الجھے ہوئے تو ہم ہیں۔ وہ بیچاری اس کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس کو کسی اور دنیا میں لے جانا چاہتا تھا۔ آخر کار اس نے تنگ آ کر کہا کہ آپ دونوں نام ملا کر لکھ سکتے ہیں نبیل کرما الخالصی اس پر عرب شہزادے نے اطمینان کا اظہار کیا یہ ٹھیک رہے گا۔ اکیلی کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی۔ ان کو ملا لیں تو اکائیاں خوبصورت ہو جاتی ہیں۔ آپ کی یہ تجویز مجھے بہت پسند آئی ہے۔

ہم فارم مکمل کر کے واپس بھی دے چکے تھے اور وہ ابھی نام لکھنے کی بھول بھلیوں میں اس بیچاری کو گھسیٹ رہا تھا۔ ویسے مس، آپ کا نام کیا ہے؟ میرا نام چیکو ہے۔ اتنا مختصر نام۔ وہ ہنس پڑی۔ اس سے البتہ ایک فائدہ ضرور ہے کہ اتنے مختصر نام سے الجھن پیدا نہیں ہو گی جو مجھے در پیش ہے۔ مس چیکو ہے تو یہ ذاتی سا سوال۔ کیا آپ اکیلی ہیں یا شادی کے بندھن میں۔ اس نے فقرہ نا مکمل چھوڑتے ہوئے پوچھا۔ سارے شرکا اس کی باتوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔

میری ابھی شادی نہیں ہوئی مس چیکو بولی۔ اچھا منگنی تو ہو گئی ہو گی۔ نہیں ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی۔ وہ اس وقت خالصی کا فارم بھر رہی تھی۔ خالصی نے اچانک اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہم سب گھبرا گئے کہ معلوم نہیں کیا کرنے لگا ہے۔ اس نے مس چیکو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر اس کی انگلی میں پڑی انگوٹھی پر اپنی انگلی رکھ دی۔

تو پھر یہ کیا ہے۔ ہم سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ کمرے میں قہقہہ پڑا۔ چیکو سن نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی میں سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی، اس نے جھینپتے ہوئے کہا یہ ویسے ہی پہن رکھی ہے۔ خالصی ایک ماہر نشانہ باز لگتا تھا اور ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہا تھا۔

میں تو اسے بے وقوف سا آدمی سمجھا تھا لیکن اپنے کام کا ماہر تھا۔ ہم فارم مکمل کرتے رہے اتنی دیر میں خالصی چیکو سن سے نام اس کا ایڈریس اور فون نمبر لے چکا تھا اور اپنا کارڈ بھی دے چکا تھا۔

جب فارم بھر لئے گئے بنک ملازمین یہ کہ کر چلے گئے کہ کل آپ کو اے ٹی ایم کارڈز مل جائیں گے اور آپ اپنا اکاؤنٹ استعمال کرسکیں گے۔

خالصی ہاتھ میں تسبیح لئے بے چین ہو کر ٹہل رہا تھا اور کہ رہا تھا معلوم نہیں بنک سے کل کون آئے گا۔
اب وہ نہیں آئیں گے جن کا آپ کو انتظار ہے، میں نے کہا، بھول جائیں
یار آپ لوگ دعا تو کر سکتے ہیں کہ مس چیکو آئے، دعا میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ اللہ اکبر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments