کیا یورپ عالمی تیسری جنگ کا میدان بن جائے گا؟


خرکیف سے روسی فوجوں کے اسٹریٹجک انخلاء کے بعد یوکرین جنگ کے اختتام کی توقع رکھنے والے خاطر جمع رکھیں، فی الحال اس مہلک تنازعہ کے حتمی نتائج کی پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ پیش قدمی یا اسٹریٹجک پسپائی جنگ کے کھیل کا ناگزیر حصہ ہوتے ہیں، چنانچہ ابھی فریقین کے حامیوں کی طرف سے جشن یا پچھتاوا قبل از وقت ہو گا تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی سسٹم کے طور پر یک قطبی نظام کا تصور بہت جلد ناکامی سے دوچار ہونے والا ہے، فطری طور پر دنیا میں بسنے والی اقوام ایسی کثیر القطبی دنیا کا خیرمقدم کرنے کو بیتاب ہیں، جہاں خودمختار قومیں مغربی اتحاد کے ناقص ”قواعد“ والی رکنیت لئے بغیر بھی اپنی قسمت کے فیصلے خود کر سکیں گے۔

اس نقطہ نظر کے مخالفین یہ کاوئنٹر بیانیہ پیش کرتے ہوئے ہیں کہ روس گلوبلسٹ غاصبوں سے لڑنے والا کوئی مقدس ملک نہیں بلکہ وہ بھی اس نیو نو آبادیاتی نظام کا بنیادی شراکت دار ہے، جس کے قیام و دوام کی صورت میں اسے اپنے لئے مناسب حصہ چاہیے لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ جب روس سوویت یونین تھا تو یورپ کے علاوہ امریکی بائیں بازو کے لوگ (جو اب یہاں حاکم ہیں ) بھی روسی نظام کی تعریف میں رطب السان رہتے تھے، ان کا خیال تھا کہ سرمایہ دارنہ نظام کے تابکاری اثرات کو روکنے کی خاطر برلن جیسی دیواریں بنانا ٹھیک تھا، امریکہ و یورپ کے قدامت پسند گروہ اب بھی شاید روس کے فطری حلیف ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ ڈونباس میں روسی فتح کے لئے دعا گو بھی ہیں کیونکہ انہیں مضبوط روس سے کوئی خوف نہیں بلکہ یہ انہیں نیا مساوی ورلڈ آرڈر تشکیل دینے کے لئے لازمی تصور کرتے ہیں

یہ سچ ہے کہ مغربی کیمپ بالخصوص اینگلو 300 سالوں سے روسی غلبہ سے بچنے کی تگ و دو میں سرگرداں رہے تاہم لگتا ہے اب روسیوں نے مغربی گروہوں کے ڈراونے خواب کو تعبیر کا لبادہ پہنا دیا، ہم دیکھ رہے ہیں کہ روس عالمی پابندیوں کے باوجود نتائج حاصل کرنے کے لئے بہترین حکمت سے عمل پیرا ہے، ضرورت پڑنے پر روس بہت دیر تک یوکرین کو ہموار کرنے کے لئے فائر پاور کو برقرار رکھے گا، خاص طور پر اگر یوکرین دریائے ڈینیپر کے مشرقی کنارے کو عبور کرنے یا کریمیا پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو صورت حال زیادہ گمبھیر ہو سکتی ہے۔

حکمت عملی کی یہی موافقت اگر پورے آپریشن کے دوران قائم رہی تو آخر کار مغربی یورپ کے خلاف صدر پوٹن کی پیشقدمی فتح پہ منتج ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا روس جو فوجی طاقت اور جارحیت کے ذریعے اپنی ناکام یونین کی تعمیر نو کی سرگرمی سے کوشش کر رہا ہو لیکن روس کی یہی پیشقدمی دنیا کی غصب شدہ آزادیوں کی بحالی کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے کیونکہ کرہ ارض پہ پچھلے 33 سالوں کی امریکی بالادستی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اہل مغرب یہ تو چاہتے ہیں کہ ایک ایسا پرامن یورپ زندہ و تابندہ رہے جہاں لوگوں کی آواز ہو، وہ خوشحال ہوں لیکن باقی دنیا کو وہ کھلے دل سے سماجی آزادیوں، معاشی خوشحالی اور داخلی خود مختیاری کی اجازت دینے کو تیار نہیں.

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو اپنے رکن ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ کے لئے روس کو بھڑکانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، جس کے بعد جنگ بندی کرانے والا پورا گروہ اس جنگ میں ملوث ہو جائے گا، جیسے پرل ہاربر پہ جاپانی حملہ کے بعد ، امریکی، جنگ عظیم دوم میں شامل ہو گئے، انہوں نے جاپان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی، پہ ایٹمی بم گرا کے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اسی لئے روس محتاط ہے۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ روس جارحیت نہیں، صرف اپنا دفاع کر رہا ہے لیکن جنگ کی کھجلی مغرب کی تکنیکی مجبوریوں کا انتظار نہیں کرے گی، بالآخر گڑبڑ ضرور ہو گی اور روس بھی بڑے ہتھیاروں کو اس طرح اتارے گا جیسے وہ جارحیت نہیں بلکہ ”دفاع“ کر رہا ہو۔

مغربی اشرافیہ کا تاریخی المیہ یہی رہا کہ جنگ عظیم اول کے بعد مغرب نے کوئی بھی جنگ اپنے دفاع کے لئے نہیں لڑی، ان کی ہر جنگ جارحیت تھی بلکہ سٹی آف لندن کے بینکرز نپولین کے خود کو شہنشاہ قرار دینے سے پہلے ہی بڑی جنگوں کی منصوبہ بندی کرچکے تھے، خدشہ ہے وہ اب بھی اپنی پرانی روش ترک نہیں کریں گے۔ تاہم اسی یوکرین جنگ نے مغربی تہذیب کے چہرے کا میک اپ اتارنا شروع کر دیا۔

ہم کون ہیں؟ مہاجرین کہتے ہیں کہ ہم بیوقوف ہیں جو عالمی آفت کے ہاتھوں میں یرغمال بنتے چلے جا رہے ہیں، اب بیدار ہونے اور اس پروپیگنڈا زدہ ذہنیت کو ترک کرنے اور اس پاگل پن کو ختم کرنے اور ایک بہتر دنیا کے حصول کے لئے دوبارہ جدوجہد شروع کرنے کے لئے یہی مناسب وقت ہے کیونکہ مغربی اشرافیہ کے خود غرضانہ عمل کا یہ موجودہ طریقہ کسی بھی ذی روح کو فائدہ نہیں پہنچائے گا، کچھ صدیوں پہلے یہاں کم ہتھیار والے لوگ بھی بے انصافی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے، اب پھر ہمیں اپنی بقا کی خاطر یہی دلیرانہ روش اپنانا پڑے گی۔

روس میں بھی لوگ خطہ اور وسیع تر دنیا کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی سے مطمئن نہیں، وہ کہتے ہیں کہ روسی رہنما تیسری عالمی جنگ چاہتے ہیں، سرکاری ٹی وی پر ان کا پاگل منہ روس سے یورپ پر براہ راست حملہ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے، پالیسی سازوں کی اسی سوچ کے باعث جوہری طاقتوں کے مابین جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں، کیا ہمارے لیڈرز واقعی ذہنی مریض بن چکے ہیں؟ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ واقعی وہ یورپ کو عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

جوہری طاقتوں میں جنگ کرہ ارض پر سب کے لئے تباہ کن ہو گی بشمول ان لوگوں کے جو تیسری عالمی جنگ کو احمقانہ انداز میں پکار رہے ہیں لیکن روسی قیادت کہتی ہے کہ حقیقت میں یہ کوئی بڑی جنگ نہیں بلکہ یہ خصوصی فوجی آپریشن ہے۔ یورپی یونین اور امریکی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح آج بھی رکن ملک کو دشمن کے جارحانہ فوجی حملہ کے خلاف اپنی سرحدوں کے دفاع میں مدد دینا چاہتے ہیں، نیٹو کے کسی رکن ملک نے کبھی روس میں فوج بھیجنے کا مشورہ نہیں دیا تاہم انہیں پورا یقین ہے کہ اگر یوکرین نے روسی علاقوں میں فوج بھیجنا شروع کی (اس میں وہ علاقہ شامل نہیں جو روسی افواج نے حملہ کر کے یوکرین سے چھینا تھا) تو یوکرین کی فوجی مدد بند کر دی جائے گی اور نیٹو ممالک مطالبہ کرے گا، یوکرین پیچھے ہٹ جائے یا مذاکرات کرے مگر روسی اس جنگ کو مغرب کے گلے مڑتے جا رہے ہیں تاکہ ایسے عمل کا جواز پیش کیا جا سکے جسے تقریباً ہر کوئی غلط سمجھتا ہے لیکن پوٹن کی ہٹ دھرمی اور اس سے چمٹے رہنے والوں کے خوف کی وجہ سے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ اتنا ہی بے ہودہ ہے جتنا امریکہ نے پورے ”ڈومینو ایفیکٹ“ تھیوری کو ویتنام میں اپنی بری جنگ کو جواز فراہم کرنے کے لئے گھمانے کی کوشش کی تھی۔ اس پہلو سے مغرب پر الزام لگانا، ماضی میں شائستگی سے کام لینے میں اس کی حقیقی ناکامیوں کی طرف اشارہ کرنا اور پھر انہیں روس کے اسی طرح کی ناشائستہ حرکتیں کرنے کے جواز کے طور پر استعمال کرنا محض بکواس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments