سید حیدر حسین کی کتاب ماریا اور دوسرے افسانے


ایک روز ان باکس میں میسج ملا میں حیدر حسین ہوں، اپنا واٹس ایپ نمبر دے دیجیے، آواز میں ایک اعتماد اور نرمی تھی، نمبر دے دیا گیا۔ ایام اعزا تھے، غالباً سات یا آٹھ محرم، فون آ گیا کہا کہ اگر کوئی مصروفیت نہیں تو وہ آج شام ہی میر احمد نوید اور ہم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم نے شام پانچ بجے کا وقت دے دیا، ٹھیک طے کردہ وقت پر ہم نے ان کا استقبال کیا۔ دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ مہذب انسان ہمیشہ ہی اچھے سامع ہوتے ہیں۔ حیدر صاحب تہذیب کی اس کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔

کچھ لوگ کچھ ایسی وضع کے ساتھ آپ پر تاثر چھوڑتے ہیں کہ جو برسوں کسی سے ملتے رہنے کے باوجود قبولا نہیں جاتا۔ وقت رخصت اپنی کتاب دے گئے۔

ان کے جانے کے بعد ہم نے ان کی کتاب مطالعے کی غرض سے اٹھائی، ادھر ادھر سے سر سری مطالعہ کرنے کے لیے ورق پلٹے تو ایک خوشگوار احساس نے جکڑ لیا کہ ٹھہریے اس جہان دیگر سے آپ سرسری نہیں گزر سکتے۔

حیدر حسین سے آپ بات کریں، ان کی کہانیوں کی تعریف کریں تو وہ تو حیران ہوتے ہی ہیں پر ہمیں بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ ان کی پہلی کتاب ہے!

گونا گوں مصروفیات میں تبصرے کے خیال نے جکڑے رکھا، اور جب تبصرے کے لیے دوبارہ کتاب ہاتھ میں لی تب بھی ایسا محسوس ہوا جیسے پہلی بار پڑھ رہے ہیں۔ ایک کہانی کار کی کسی بھی کتاب کی اس سے بڑھ کر کیا پذیرائی ہو سکتی ہے کہ دوسری بار پڑھنے پر بھی آپ کی دلچسپی برقرار رہے۔

حیدر حسین ایک خوب صورت کہانی کار مگر شہرت کے چلن اور پی آر کے شغل سے نا آشنا۔ اپنے بارے میں بات کرنے کے خبط میں بھی مبتلا نہیں۔ ’میں‘ کا صیغہ ضرورتاً ہی استعمال کرتے ہیں۔ اپنی پسند نا پسند عادات اختلافات بیان نہیں کرتے۔ بس ان کی کہانیاں لیجیے، انہیں پڑھیے اور مصنف تک پہنچنے کی خود کوشش کیجیے۔ ان کی کہانیوں کا وصف اس کا اختتام ہے چونکانے اور سوال اٹھانے والا ایسا انجام جہاں آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ اور پھر آغاز کو انجام دیا جا سکتا ہے۔

برسوں سے ناروے میں مقیم ہیں۔ لیکن ان کی کہانیوں میں ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا نظر آتا ہے۔ یورپ میں دنیا بھر کے لوگوں سے میل جول ہوا، حساس اور متجسس شخص کے دیکھنے سوچنے کا زاویہ عام شخص سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک سچا تخلیق کا ر جس ماحول کا پروردہ ہو، وہی اسے بہتر انداز سے لکھ سکتا ہے۔

ایک سو تئیس صفحات کی اس کتاب میں تیرہ افسانے ہیں۔ جن میں ایک جہان آباد ہے۔ یہ کہانیاں محض کہانیاں نہیں سفر نامے ہیں، جہاں مختلف تہذیبوں کے رہن سہن اور بولیوں کے رنگ نظر آتے ہیں وہیں جغرافیائی، ملی، نسلی، لسانی، مذہبی و طبقاتی جیون ساگر میں بہتے انسان بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے مشاہدے کی روشنی نے کتاب کو اسکرین بنا دیا ہے جس میں آپ کرداروں کو چلتے پھرتے دیکھتے ہیں۔

مختصر افسانے میں، پوری بات اس طور اور اس کیفیت میں کہہ دینا کہ قاری خود مصنف کی جگہ لے کر اس کی بات کی تکلیف کو محسوس کرے، ایسا کمال صاحب دل حیدر حسین کے پاس ہے۔

ان کی زبان سادہ موضوعات میں تنوع اور نثر میں جاذبیت ہے جو قاری کو کتاب سے جوڑے نہیں بلکہ چپکائے رکھتی ہے۔ ان کی تحریر میں انسانی نفسیات کے گہرے مطالعے کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ان کی کہانیوں کے کردار دنیا میں کہیں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایک کہانی ”پرس“ میں پٹھان کو لسانی آگ میں جھونک دیا جا نا اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے سے کس طرح ایمانداری، معصومیت اور نیکی کو نفرت کی بھینٹ چڑھا کر ختم کیا گیا۔

ان کہانیوں میں وہ نا انصافی، ظلم اور نفرت کے جذبے کے خلاف ہاتھ میں انسان دوستی کا علم لیے احتجاجی جلوس میں شامل نظر آتے ہیں۔

ایک کہانی ”کیش“ میں مشرا صاحب کے ہندوستانی سماج اور برصغیری معاشرے کے عمومی دوغلے چہرے کی جھلک ہے۔

”وارڈ نمبر دس“ میں کیا ہے کچھ نہیں، نہ کوئی منفی کردار نہ نیکی کا پرچار نہ کوئی پیغام نہ تبلیغ لیکن ہسپتال میں خود ایک کردار بن کر کیسے موت کی سراسیمگی کو توتلے رشید کے ہاتھوں شگفتگی میں تبدیل کیا ہے۔ چادر میں لپیٹے جانے والی مروں کی کہانی میں انہوں نے عمیق مشاہدے اور جزئیات نگاری سے جان ڈال دی۔ متجسس اور حساس طبیعت کے ہاتھوں چند روز ہسپتال میں گزارنے سے ایک خوب صورت کہانی وجود میں آئی۔ ایسی کہانی جس میں کوئی خاص واقعہ نہیں لیکن مصنف کے سلیقے نے اسے کہانی کر دیا۔

ان تیرہ کہانیوں میں دنیا کو جنت دیکھنے کی آرزو میں زندگی کے وبال آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ انسانی فطرت کے منفی رویے معاشرے میں کیسا بھونچال پیدا کرتے ہیں، ان کی کہانی ”انسانیت“ کمہار خیرو کی زبان سے نکلنے والے الفاظ نے ان کی تمام کہانیوں کا ماخذ بیان کر دیا گیا ہے۔

” یہ انسانیت کی لاش ہے پتر۔ لاش کا کوئی مذہب، کوئی مسلک نہیں ہوتا“
غیرت مندی کس طرح مصلحت کا لبادہ اوڑھتی ہے، ”غیرت مند“ اور ”وارث“ اس کی عکاس ہیں۔

مولوی اللہ دتہ ایسی کہانی نے انہیں معتبر افسانہ نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایسی پختہ تحریریں جن کا ڈھب اکثریت کے مشہور ادیبوں کو بھی میسر نہیں۔

نگاہ حسن رکھنے والے صاحب دل، کہانی کار کے لیے انسانیت کے مکروہ چہرے ایسا اندوہ ہیں جن سے گزرنا اک سیل بلا ہے۔ تاروں کی زمام تھامنے کی جستجو میں درد ہستی سمیٹے، حساس تخلیق کار کے ہاتھ راکھ آتی ہے یا آبلے، یہ صدیوں کا بھوگ ہے چند برس کی مہلت عمر میں وہ انہیں کس کس طرح یکجا کرتا ہے۔ ان تیرہ افسانوں میں دیکھ لیں۔ دعا کرتی ہوں کہ ہے کہ حیدر جی بھر جئیں اور لکھیں، ان کی آنے والی کتاب میں تیرہ نہیں چھبیس افسانے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments