بوسنیا کی چشم دید کیانی (20)


واپسی کے چند ہی دنوں بعد اپنے معمولات میں ایک بڑی تبدیلی بھابھی بانو کی آمد کے ساتھ ہوئی۔ اقبال پچھلے دو ماہ سے اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ وہ کسی طور کچھ عرصے کے لیے  بوسنیا آ جائیں۔ اُس وقت تک سرائیوو کا ہوائی اڈہ بین الاقوامی پروازوں کے لیے  کھولا نہیں گیا تھا۔ لہٰذا بوسنیا آنے کی خواہش مند بیگمات کو براستہ  کروایشیا آنا پڑتا تھا۔ اِدھر اسلام آباد میں کروایشیا کے سفارت خانے نے اپنی پالیسی کافی سخت کر لی تھی اور ٹرانزٹ ویزہ تک کے حصول میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتےتھے۔
 بانو بھابھی نے ایک نیا روٹ منتخب کیا اور براستہ  بلغراد آنے کا فیصلہ کیا۔ یوگوسلاویہ ایمبیسی بھی کچھ ایسی مہربان نہ تھی ۔اس نے اُن کی راہ میں ہر ممکن روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔ بھابھی مسلسل ایک ہفتہ تک ہر صبح سفارت خانہ کھلنے سے قبل اس کے صدر دروازے پر موجود ہوتی تھیں اور ویزا سیکشن پر ایک تازہ دم یلغار کرتی تھیں۔ بھابھی اگرچہ پشتون ہیں لیکن اُن کا جذبہ پنجابی کی ایک رومانوی داستان کے مرکزی کرداروں سے زیادہ مماثل ہے جن کے حوالے سے احمد راہی نے کہا۔
اوہ ندیاں چیر کے ملدے جیہڑے ایک جندڑی بُت دوبیلیا
سفارت خانے والے انھیں  کئی دنوں تک چائے پلا کر ٹالنے کی کوشش کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ خاتون کو ویزا دیے بغیر  گلوخلاصی مشکل ہے، لہٰذا انھوں  نے چائے کا مزید زیاں مناسب نہ سمجھا۔
اس جوڑے کے اصل ناموں کی بنیاد پر تذکیر و تانیث کا امتیاز ممکن نہ تھا جب تک کہ ناموں کے لاحقوں پر توجہ نہ دی جاۓ۔ اس طرح ہمارا دوست اقبال خان تھا اور بھابھی اقبال بانو۔ بھابھی کے اسماالرجال کے ضمرے میں آنے والے اس نام سے میرا دھیان قتیل شفائی کی ” مطربہ” کی طرف چلا جاتا تھا جس کا یہ مصرعہ۔۔۔۔سانولی سی اک لڑکی جس کا مردوں جیسا نام۔۔ ایک ایسے ہی مماثل نام کے تعارف کا ایک دلکش انداز تھا۔
بھابھی کو اگست کے تیسرے ہفتے میں بلغراد پہنچنا تھا۔ چنانچہ  اقبال نے اپنی چھُٹی اس طرح ترتیب دی کہ وہ ان کی آمد سے ایک دن قبل بلغراد پہنچ گیا ۔ وہ تین دن بلغراد میں ٹھہرے رہے اور پھر دو دن سرائیوو میں اماں عدیلہ کے گھر گزارنے کے بعد چپلینا چلے آئے۔
بھابھی کے آنے پر ہماری  بہت سی مشکلات حل ہو گئیں۔ اب تک کے معمول کے مطابق کھانا پکانا اقبال کی ذمہ داری تھی اور برتن دھونا میری۔ اب یہ دونوں کام بھابھی نے سنبھال لیے۔
بھابھی کی مقامی زبان میں شد بد حاصل کرنے کی صلاحیت ہم سے بہتر ثابت ہوئی۔ وہ اماں بوزانا کے ساتھ بھی جلد گھل مل گئیں۔
فراز نے کہا تھا۔
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے جو فسانے مانگے
خلقتِ سٹروگے کا تو پتہ نہیں  ہاں اماں بوزانا فسانہ طرازی کے میدان میں لاثانی تھی۔آج کل اماں بوزانا کا پسندیدہ موضوع ایوا نامی خاتون تھی جو ہم سے چند گھر اُدھر رہتی تھی۔ وہ ایک کروایٹ مہاجر خاتون تھی جس نے دورانِ جنگ سرب اکثریتی علاقے سے بھاگ کر یہاں پناہ لی تھی، اور اس گھر پر جو ایک مسلمان خاندان نے خالی کیا تھا قابض ہو گئی تھی۔ ہجرت کی ایسی مثالیں بوسنیا کے طول و عرض میں ہر جگہ موجود تھیں۔ دوران جنگ کسی بھی علاقے میں بسنے والی اقلیت کو آخرکار اپنا آبائی علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔ یوں ہر طرف ایک بڑے پیمانے پر انتقال آبادی کا عمل وجود میں آیا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس طرح کے تمام مہاجرین جن جن علاقوں میں آ کر ٹھہرے تھے وہاں پر موجود ان کی اپنی قومیت کی مقامی آبادی انھیں  اپنا ماننے سے گریزاں تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ انھیں  دوسرے درجے کا شہری گردانتی تھی۔ کیا کروایٹ  کیا مسلمان اور کیا سرب۔ سب مہاجرین اس تفریق کا نشانہ تھے۔
ایوا کی عمر کوئی پچاس کے لگ بھگ ہو گی۔ اُس کے تین بیٹے تھے۔ دو جوان تھے جب کہ  تیسرا بیٹا اماں بوزانا کے بیٹے ساشا کا ہم عمر تھا۔ اُس کا نام جمی تھا اوروہ ساشا کا لنگوٹیا تھا۔ وہ سارا دن ساشا کے ساتھ رہتا اور اُس کے کھلونوں سے کھیلتا تھا۔ اماں بوزانا کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ لیکن وہ ساشا کی وجہ سے اُسے برداشت کرنے پر مجبور تھی۔ بستی کی کوئی بھی لڑکی ایوا کے بیٹوں کے ساتھ گھُلنا ملنا پسند نہ کرتی تھی۔ اس کی وجہ مقامی آبادی کا وہ احساس برتری تھا جو انہیں  مہاجرین کو اپنے ہم پلہ شہری تسلیم کرنے میں مانع تھا۔ اماں بوزانا، ایوا کی عمر کا لحاظ کیے بغیر  اُس کے کردار کو مشکوک نظروں سے دیکھتی تھی اور ہر روز اس کے ثبوت میں کوئی نہ کوئی نئی دلیل پیش کرتی تھی۔ اُس کے ہاں جب بھی کوئی ملنے والا آتا تو اماں بوزانا کے نزدیک وہ ہر حال میں ایوا کا عاشق ہوتا تھا۔ وہ جب کبھی ذرا بہتر لباس پہن کر گھر سے باہر نکلتی تو اماں بوزانا بڑے یقین سے یہ اعلان کرتی کہ آج ضرور کچھ ایسا معاملہ ہے کہ جس کی حیادار لوگوں کے ہاں پرد ہ داری کی جاتی ہے۔
اماں بوزانا اور بھابھی اکثر شام کو گیلری میں بیٹھی پائی جاتی تھیں۔ ایک شام جب ا یوا تھوڑی بن ٹھن کر گھر سے باہر نکلی تو اسے دیکھتے ہی اماں نےسر مٹکاتے ہوۓ بھابھی کو متوجہ کیا اور بولی آج تو ضرور کسی کو نیم بسمل یا بے جاں کرنے کا ارادہ ہے۔ بھابھی نے شرارت کی، اماں آپ تو خوامخواہ اس بیچاری پہ شک کرتی ہو۔ اماں نے چڑ کر جواب دیا جنابہ کے خیال میں یوں سولہ سنگھار کے ساتھ وہ چرچ جا رہی ہے کیا ؟
ادھر اسٹیشن پر فرنچ مافیا کا کنٹرول اسی طرح جاری تھا۔ انھی دنوں دو یوکرینین ساتھی کرنی ولاڈی سلاو اور ڈشکوذنووی نیوے سینیا سے تبدیل ہو کر ہمارے اسٹیشن میں تعینات ہوئے۔ ذنووی کرنل کے عہدے کا سینیر  پولیس افسر تھا۔ جب کہ  ولاڈی سلاو کی نوکری اتنی زیادہ نہ تھی۔ وہ براہِ راست نیم لفٹین بھرتی ہوا تھا۔ ذنووی روسیوں اور امریکیوں کا سخت مخالف تھا، اور متحدہ روس کے کمیونسٹ نظام کا انتہا پسند ناقد۔ اُس کے خیال میں یوگو سلاویہ اور روس کی تباہی کا اصل سبب سربوں اور روسیوں کی عددی برتری اور وہ متعصبانہ رویہ تھا جو وہ دوسری قوموں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔ وہ اکثر ایک لطیفہ سنایا کرتا تھا کہ ایک دفعہ ایک روسی اور ایک یوکرنیین سپاہی اکٹھے جا رہے تھے کہ انھیں  راستے میں ایک ڈبل روٹی ملی۔ روسی سپاہی نے کہا کہ چلو ہم اسے برادرانہ طور پر تقسیم کر لیتے ہیں۔ یوکرنیین سپاہی بولا نہیں ہم اسے آدھا آدھا کریں گے۔ وہ اکثر پارٹیوں میں فرمائش پر ایک یوکرینین حریت پسند کا گیت بھی سنایا کرتا تھا جو روسیوں کے جبر کا نشانہ بنا تھا۔
ان دونوں کا تعلق چونکہ  مشرقی یورپ سے تھا لہٰذا وہ جلد ہی اسٹیشن کمانڈر کرس کے قریبی ساتھی شمار ہونے لگے۔ ذُنووی کافی بہتر انگریزی لکھتا  اور بولتا تھا چنانچہ  کرس نے اسے Daily Occurrence Report (DOR)  کی تیاری کا کام سونپ رکھا تھا۔ یہ رپورٹ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کا خلاصہ ہوتی تھی جسے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر بھیجا جاتا تھا۔ کرس کے لیے  ہر صبح سب سے مشکل مرحلہ اسی DOR  کی تیاری ہوتی تھی۔ اُس کی انگریزی بس گزارا ہی تھی اور کی تیاری کے لیے  اسے بولک کی معاونت کی ضرورت پڑتی تھی۔ بولک کی انگریزی اگرچہ کرس سے بہتر تھی لیکن اُس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ جب بھی کوئی ایسی رپورٹ تیار کرنے بیٹھتا جو کہ افسرانِ بالا تک جانا ہوتی تھی تو اُسے اپنے ہر فقرے میں گرامر اور زبان کی غلطیاں نظر آنے لگتیں۔ اب وہ ہر فقرے کی کئی کئی مرتبہ نوک پلک سنوارتا اور یوں اس رپورٹ کو حتمی شکل دینے میں کئی گھنٹے صرف کر دیتا۔ کرس اُس کی اس عادت سے سخت نالاں تھا۔ روزانہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے وہ بولک پر خوب برستا تھا لیکن بولک کی طبع کو ایسی کوئی بھی رکاوٹ رواں نہ کر پاتی تھی۔ ذنووی کی آمد کے بعد DOR  کی تیاری کے سلسلے میں اب کرس منت کشِ بولک نہ رہا۔اب اس کی جگہ ذونووی کو ” کارِ خاص” کا درجہ حاصل ہو گیا( ہمارے ہاں تھانیدار کے ” اعتماد” والے ملازم کو کارِ خاص کہتے ہیں)۔
یوں ایک بڑی خرابی ہوئ۔ اب اسٹیشن میں ہمارے دن کے خوش گوار آغاز کا مستقل منظر ختم ہو گیا۔ بولک جس DOR کو تیار کرنے میں گھنٹے لگاتا تھا، ذنووی اسے منٹوں میں مکمل کر لیتا، ہاں بولک DOR  کا سینیر ہونے کےناطے اس تیاری کے دوران کسی نہ کسی مشورے کی صورت میں  دخل اندازی اپنا حق سمجھتا تھا۔
ذنووی اور ولاڈی کے آنے کے بعد اب مشرقی یورپ مافیا کو عددی اعتبار سے فرنچ مافیا کی ہمسری حاصل ہو گئی تھی لیکن چوں کہ  فرنچ مافیا کے سیّاں کرنل کاربون کی صورت میں ریجنل کمانڈر کی حیثیت میں کوتوال بھی تھے لہٰذا یہ برابری بے معنی تھی۔ علاوہ ازیں کرس کو اپنی اور اپنے مافیا کی کمزوریوں کا احساس تھا اور وہ کوئی ایسا موقع پیدا  نہیں کرنا چاہتا تھا جو اس کی اسٹیشن کمانڈر کی حیثیت کے لیے  خطرے کا باعث بنے۔
 مشرقی یورپ کے تمام مانیٹر مجموعی طور پر پرلے درجے کے کام چور تھے۔ بقول  شیوا وہ پھوکٹ کھاتے میں 90 ڈالر یومیہ کما رہے تھے۔ شیوا کی تو کیا بات تھی وہ جب ترنگ میں آتا تھا (اور یہ کیفیت وہاں کی دیسی بئیر Pivo  کی تین بوتلیں چڑھانے کے بعد اُس پر اکثر طاری ہو جاتی تھی) تو اُسے تو یو این کا پورا نظام ہی پھوکٹ کھاتہ دکھائی دیتا تھا لیکن یہ ایک حقیقت تھی کہ پولش، بلغارین اور اب یوکرینین مانیٹروں کی تمام تر دلچسپی  بس یہ تھی کہ وہ گشت کے بہانے ایک گاڑی حاصل کریں اور پھر سارا دن یُوں لُور لُور پھریں کہ انھیں  چراغِ رخِ زیبا لے کر بھی ڈھونڈھ نکالنا آسان نہ ہو۔
دوسری طرف فرنچ مافیا بھی اس حوالے سے کچھ ایسا پیچھے نہ تھا۔ اُن کی ڈاک IFOR  (بعد میں SFOR) کے کیمپ واقع موسطار آتی تھی۔ وہ اپنی ڈاک کا پتہ کرنے کے لیے روزانہ موسطار کا ایک چکر تو ہر حال میں لگاتے تھے علاوہ ازیں کروایشیا کے سرحدی قصبے Matcovich  میں واقع فرنچ پی ایکس (ڈیوٹی فری شاپ) کا ایک چکر بھی شراب اور مشروبات کے ذخیرے کو ایک خاص سطح پر رکھنے کے لیے  ضروری ہوتا تھا۔
بھلا سا نام ہے اس کا اسے کہتے ہیں کیا زاہد
صراحی میں جو ڈلتی ہے جو پیمانے میں ہوتی ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments