حافظ خوشحال روخان يوسفزئی کی آزمائش


یہ سال چورانوے پچانوے کی بات ہوگی جب میں نے اسلامیہ کالج کراچی سے گریجویشن کر کے ایس ایم لاء کالج میں ایل ایل بی میں نیا نیا داخلہ لیا تھا۔ اور میرے جرس ادبی جرگہ کے ماہانہ تنقیدی اجلاسوں میں جانے کے دو ڈھائی سال گزر چکے تھے۔ اور میں روخان یوسفزئی کے نام سے ڈاکٹر زبیر حسرت کے رپورتاژ، لہ مردانہ تر مردانہ، (مردان سے مردان تک) پڑھنے کے بعد غائبانہ طور پر واقف ہو گیا تھا۔ لیکن جب وہ ان ہی دنوں میں کراچی آئے اور جرس ادبی جرگے میں نہ صرف باقاعدگی سے شامل ہوتے رہے بلکہ سہ ماہی جرس پشتو ریاض تسنیم کے ساتھ مدیر اعلی طاہر آفریدی نے اپنے ساتھ معاون بھی مقرر کیا تو ان کے کام، ادبی، سیاسی مطالعے، تنقیدی اپروچ کے ساتھ ساتھ ان کی ذہانت اور برجستگی سے بھی واقف ہوا۔

روخان یوسفزئی خوشحال خان خٹک کے مہا کے معتقد ہیں۔ وہ خوشحال خان خٹک کو نابغہ روزگار شخصیت گردانتے ہیں۔ وہ خوشحال خان خٹک کے اصل فین ہے۔ ان کو خوشحال خان خٹک کے اتنے اشعار یاد ہیں کہ جب ہم نے ان کو حافظ خوشحال کہنا شروع کیا تو ان کے بقول کہ یہ فلاں بھی ( جن کا نام میں اب بھول چکا ہوں ) مجھے حافظ خوشحال پکارا کرتے تھے۔

سیاسی موضوع ہو تو فٹ سے اس موضوع سے متعلقہ خوشحال خان خٹک کا شعر سنا دیتے تھے۔ سماجی مسئلہ زیر بحث ہو تو کھڑے کھڑے اس صورت حال پر خوشحال خان خٹک کے ایک شعر کو گوش گزار کرا دیتے تھے۔ معاشی ناہمواری کا قضیہ ہو تو خوشحال خٹک کو اس طرح سے کوٹ کرتے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس موضوع پر بھی اتنا برجستگی سے کوئی شعر کا سہارا لے سکتا ہے۔ اخلاقی گفتگو میں خوشحال خان خٹک کے کسی متعلقہ شعر کا ایسے تڑکا لگا دیتے کہ سارے یار دوست عش کر کے رہ جاتے۔ جنگ و امن کا تکرار ہو تو ان کا اظہار ضرور خوشحال خان خٹک کے کسی شعر سے شروع ہو کر ان ہی کی کسی شعر پر تان ٹوٹتی۔ رومانس، موسم، حکمت عملی، ثقافت بودوباش، زبان، نسل، خوب صورتی، بد صورتی، ہما جمالیات و کمالیات، شادی بیاہ، غمی خوشی، مہمان نوازی، شجاعت، بزدلی، دوستی، دشمنی، اقربا پروری، صاف گوئی، ہجو، صحت، بیماری، علاج معالجے، جوانی بڑھاپے، مرد و زن، بچے، جانور، چرند پرند درند حتی کہ ایک بار دوستوں کے ساتھ سوات گھومنے گئے تھے اور وہاں ایک صاف پانی کے چشمے سے جب پانی سے لاپہ بھرنے جھکے تو لاپہ منہ میں لانے سے پہلے پہلے چشمے کے صاف پانی پینے کی افادیت پر خوشحال خان خٹک کے شعر سے اپنا ادبی پیاس بجھا دی۔

ایک بار کراچی میں نیپا آڈیٹوریم میں علامہ اقبال پر کوئی ادبی پروگرام ہو رہا تھا تو ایک صاحب کئی زبانوں کے اسلاف یعنی رومی، سعدی، نٹشے وغیرہ کے نام نامی لے کر کہ وہ ان سے متاثر تھے اپنے مضمون کو آگے بڑھا رہے تھے کہ عین وسط بیان روخان یوسفزئی نے ان پر صدا کسی کہ موصوف خوشحال خان خٹک سے بھی متاثر تھے جس پر سارا حال ان کی جانب متوجہ ہوا۔

اسی طرح روخان یوسفزئی جب مجھ سے پہلی بار ملے اور ان کو جب پتہ چلا کہ میں نظام پور کمر میلہ سے ہوں تو مجھے کہا کہ بڑے تاریخی جگہ سے تعلق رکھتے ہو خوشحال خان خٹک نے اپنے اشعار میں ان جگہوں کا ذکر بڑی خوب صورتی سے کیا ہے۔

روخان یوسفزئی نے ساری زندگی ادب اور صحافت سے جڑے گزاری لیکن کبھی بھی میں نے اس بندے کو مایوس ہوتے نہیں دیکھا، ہنسنا ہنسانا ان کی پہچان اور شان ہے۔ یاروں کا یار اور دوستوں کا دوست ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ان کی اداس، رنجیدہ اور سنجیدہ تصویر کے نیچے یہ لکھا ہوا شعر

چہ ازمیختونو تہ بہ غاڑہ وتو
روخان اوس ہغہ روخان پاتے نہ دے
( جو آزمائشوں کو گلے لگایا کرتا تھا
اب روخان وہ روخان رہا ہی نہیں )

جب پڑھا تو مجھے دلی صدمہ پہنچا میں اپنے داخل میں دکھی ہوا کیونکہ یہ دکھ یہ غم اور یہ رنج ان کے اپنے جسم کا نہیں تھا لیکن ان کے جسمانی اور روحانی خمیر سے وجود پانے والے لخت جگر کا رنج و الم ضرور تھا جس نے ان کے چہرے پر بڑھاپے کا پیکر چڑھا دیا تھا۔ جن کو کینسر ہے اور پشاور کے شوکت خانم ہسپتال میں زیر علاج ہے جو ٹسٹوں کے بعد ریکوری کی خوش آئند خبر کے ساتھ اپنی جوانی اور روشن مستقل کی جانب رواں دواں ہے۔

خودداری اور سفید پوشی کی خاموشی کی زبان وہ چیخ ہے جو دلوں کو چیرتی اور کانوں کے پردوں کو پھاڑتی ہوئی سماج میں گونج بن جاتی ہے جو سب کی مدد سماعتوں سے یکساں ٹکراتی ہے۔

اللہ کرے کہ روخان یوسفزئی اس کھڑی آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے اور واپس اپنی ہنستی مسکراتی دنیا کو لوٹے اور ان کا یہ صاحب فراش لخت جگر ان کے لئے مستقل میں صاحب معاش اور صاحب بودوباش ثابت ہو۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments