26 نومبر کے دھڑکے


یار لوگوں نے میری دیانت اور ایمانداری کو مشتبہ بنانے کے لئے کافی سوالات اٹھا رکھے ہیں۔ ”لفافہ اور ٹوکری“ کے القابات اس ضمن میں بہت مقبول ہیں۔ بدترین دشمن نے بھی اگرچہ عمران خان صاحب کا چاکر ہونے کی تہمت اب تک نہیں لگائی ہے۔ اس”اعزاز“ سے محروم رہنے کے باوجود اصرار کروں گا کہ تحریک انصاف نے حکومت وقت ہی کو نہیں اس کے سرپرستوں کو بھی پنجابی والا ”وختہ“ ڈال رکھا ہے۔ عمران خان صاحب کی مخالفت میں لکھنے اور بولنے والے مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

نظر بظاہر 28 اکتوبر کے دن سے سابق وزیر اعظم لاہور سے ایک ”یلغاری“ لشکر کی صورت اسلام آباد روانہ ہوئے تو آٹھ دنوں تک جان بوجھ کر پھیلائے سفر کے دوران انہیں جوش و جذبے سے بھرپور رسپانس نہیں ملا۔ عموماََ وہ عصر کے قریب کسی جلسہ نما تقریب سے خطاب کے بعد لاہور واپس چلے جاتے۔ ان کی اس انداز میں واپسی نے بصری اعتبار سے یہ پیغام پھیلایا کہ ان کا ”لانگ مارچ“ کسی ”انقلابی قافلے“ کی صورت اپنی منزل کی جانب رواں دواں نہیں جو رات کے قریب خیموں سے بنائی کسی بستی میں شب بسری کے لئے ”پڑاﺅ“ کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔

دریں اثنا وزیر آباد کے قریب ان کے قافلے پر حملہ بھی ہو گیا۔ عمران خان صاحب یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ مذکورہ حملے کا مقصد ان کی جان لینا تھا۔ ربّ کا صد شکر کہ یہ کاوش ناکام ہوئی۔ حملہ کا ذمہ دار شخص بھی تحریک انصاف کے ایک کارکن کی دلیری کے باعث گرفتار ہو گیا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان پر گولی چلانے والے کی طرح موقعہ پر ہی ماردیا جاتا تو ہمارے پاس زیر بحث لانے کو محض سازشی کہانیاں ہی رہ جاتیں۔ عقدہ کبھی حل نہ ہوتا۔

عمران صاحب پر حملہ کرنے والے کی عین جائے وقوعہ پر گرفتاری بھی تاہم عقدہ کو ابھی تک حل نہیں کر پائی ہے۔ سابق وزیر اعظم ان تین افراد کے خلاف ابھی تک ایف آئی آر کٹوانے میں ناکام رہے ہیں جنہیں وہ اپنے قتل کی سازش رچانے کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی ”مجبوری“ مزید قابل غور اس لئے بھی ہے کیونکہ پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں چودھری پرویز الٰہی محض نو ووٹوں کی بدولت تحریک انصاف کی مدد سے بطور وزیر اعلیٰ راج کر رہے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ عمران خان صاحب کی تھپکی سے قائم ہوئی حکومت اگر اپنے مربی کی منشا کے مطابق ایف آئی آردرج نہ کرسکے تو وہ میرے اور آپ جیسے عام شہری کی مچائی دہائی پر توجہ کیوں دے گی۔”گڈ  گورننس“ کا خواب گویا خواب ہی رہے گا۔

بہرحال عمران خان صاحب کی جماعت کا اسلام آباد کی جانب سفر رکا نہیں تھما نہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے اس کی قیادت سنبھال لی۔ اسد عمر پنجاب کے دیگر شہروں میں جاکر تحریک انصاف کے کارکنوں کے د ل گرماتے رہے۔ خان صاحب ان دونوں کے اکٹھے کئے مجمع سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب فرماتے رہے۔گزرے ہفتے کے دن انہوں نے راولپنڈی پہنچنے کی حتمی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ جو تاریخ یعنی 26 نومبر طے ہوئی ہے اس کا تعین عمران خان صاحب کے ناقدین سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ باور کیا جارہا ہے کہ مذکورہ تاریخ کے اعلان سے قبل مسلم لیگ (نون) کے اہم ترین رہ نما جناب اسحاق ڈار صاحب کی صدر عارف علوی سے جو ملاقات ہوئی اس کے اطمینان بخش نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے تگڑے وزیر خزانہ اور نائب وزیر اعظم جیسے اختیارات سے مالا مال ڈار صاحب کو صدر مملکت نے اطمینان دلا دیا ہے کہ تعیناتی کے ضمن میں انہیں جو سمری وصول ہوگی وہ اس کی حتمی منظوری کے لئے فوراََ دستخط کردیں گے۔ اس تناظر میں لیت ولال سے کام نہیں لیں گے۔

ڈار صاحب نے بذاتِ خود مگر مذکورہ ملاقات کے حوالے سے کیمروں کے روبرو تاثر کو تصدیق فراہم کرنے والے کلمات ادا نہیں کئے ہیں۔ ہمارے سینئر صحافیوں سے وہ رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے فون اٹھاتے ہیں۔انہیں واٹس ایپ پر اٹھائے سوالات کے جوابات بھی فراہم کردیتے ہیں۔ایسے بااثر صحافی بھی تاہم دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوںنے صدر مملکت کو محض (اور میں لفظ محض کو خط کشیدہ کرنا چاہوں گا) پاکستان کی معیشت کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا ہے۔

ڈار صاحب کے اعتماد سے مالا مال صحافیوں کے دعویٰ پرمیں ہر صورت بھروسہ کرنے کو آمادہ ہوں۔ میرے دل میں موجود رپورٹر اگرچہ یہ سوال اٹھانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ ”علامتی عہدے“ کے حامل صدر علو ی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کونسے ایسے نسخے تجویز کرسکتے ہیں جو پاکستان کے تیسری بار وزیر خزانہ ہوئے اسحاق ڈارکو ابھی تک سمجھ نہیں آئے۔ صدر مملکت کے روبرو ڈار صاحب کی جانب سے معاشی حالات کی دگرگوں حالت بیان کرنے کا فقط ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ عارف علوی ان کی سنگینی کو اپنے قائد عمران خان صاحب تک پہنچائیں۔ ان سے ”ہتھ ہولا“ رکھنے کی درخواست کریں۔

صدر عارف علوی نے ڈار صاحب کے ساتھ ملاقات کے دوران تعاون کا وعدہ کیا ہوتا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو ”ہنگامی“ دِکھتی پریس کانفرنس سے خطاب کی ضرورت نہیں تھی۔ مذکورہ پریس کانفرنس کے دوران وہ یہ عندیہ دیتے نظر آئے کہ اگر صدر عارف علوی نے تعیناتی کے ضمن میں ”اڑی“ دکھائی تو ملک خدانخواستہ ایک اور مارشل لاءکی نذر بھی ہو سکتا ہے۔ ”سنگین نتائج“ کا استعمال بھی مذکورہ پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری ہی نے کیا ہے۔ ان کے والد بھی طویل وقفے کے بعد اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔cمولانا فضل الرحمن کی ان سے تنہائی میں ملاقات بھی ہوئی ہے۔ مجھے گماں ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس ا ن دونوں رہ نماﺅں کی سوچ کی عکاس بھی تھی۔cاسی سوچ کے تناظر میں عمران خان صاحب کی راولپنڈی آمد کے لئے 26cنومبر کا تعین مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اسی باعث فریاد کئے چلا جا رہا تھا کہ تعیناتی کا فیصلہ ہر صورت 18 نومبر کے بعد کرنے کو بضد نہ رہا جائے۔ طاقت ور لوگوں کے واٹس ایپ تک رسائی نہ رکھنے والے مجھ ایسے دیہاڑی باز کالم نگار کی فریاد مگر کون سنتا ہے۔؟

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments