نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری کا معاملہ کیا تاخیر کا شکار ہو رہا ہے؟


آرمی چیف باجوہ
وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف گذشتہ چند ہفتوں کی دوران نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے متعدد تاریخیں دے چکے ہیں۔

اس حوالے سے اپنے ابتدائی بیانات میں اُن کا کہنا تھا نئے آرمی چیف کی تقرری کی تفصیلات نومبر کے پہلے ہفتے میں واضح ہو جائیں گے، بعدازاں انھوں نے 18 نومبر کی تاریخ دی اور گذشتہ روز قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سمری اور آرمی چیف کی تقرری کے لیے سینئیر ترین لیفٹیننٹ جنرلز اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے سروس ڈوزیئرز اگلے دو دن میں وزیرِ اعظم کے دفتر یعنی پی ایم او پہنچا دیے جائیں گے۔

لیکن اس وقت سوال کیا جا رہا ہے کہ آخر سمری وزیرِ اعظم آفس تک بھیجنے میں تاخیر کیوں برتی جا رہی ہے؟ اور یہ کہ سمری بھیجنے کا طریقہ کار ہوتا کیا ہے؟

سابق سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سمری بھیجنا ایک طرح کی رسمی کارروائی ہے جس میں ’ایک گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دن لگ سکتا ہے۔ مگر اس سے زیادہ وقت لگنا نہیں چاہیے۔‘

سمری متعلقہ افسران جو آرمی چیف بننے کے اہل ہوتے ہیں کے ناموں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ان کی تفصیلات سی وی کی طرح درج ہوتی ہیں، جنھیں ’ڈوزئیر‘ اور ’پرسنل فائل‘ بھی کہا جاتا ہے۔

آرمی چیف

حال ہی میں وزیرِ اعظم آفس نے وزارتِ دفاع کو خط لکھ کر اس ضمن میں سمری بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔ عمومی طور پر طریقہ کار بھی یہی ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم کا دفتر وزارتِ دفاع کو لکھتا ہے اور فوج کی سروس سے ریٹائر ہونے والے افسران کی فہرست منگواتا ہے۔

وزارتِ دفاع جی ایچ کیو کو لکھتا ہے۔ جی ایچ کیو کی طرف سے پانچ یا آٹھ افسران کے نام بھیجے جاتے ہیں۔ جن میں ان کی ’پرسنل فائل‘ بھی موجود ہوتی ہے۔

جی ایچ کیو کی جانب سے آٹھ ناموں کی لسٹ بھی بھیجی جا سکتی ہے۔ ’جی ایچ کیو سے نام آنے کی بعد ان ناموں کی فہرست وزارتِ دفاع جاتی ہے، جہاں سے وہ وزیرِ اعظم آفس پہنچتی ہے۔‘

وزارتِ دفاع کے پاس ایسا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی کا نام بھیج سکیں بلکہ اس پورے معاملے میں وزارت دفاع کا کام فقط ڈاک خانے والا ہوتا ہے۔

جی ایچ کیو کے اپنے معیار کے مطابق آرمی چیف کی تقرری کے لیے نامزد افسر کو لیفٹیننٹ جنرل ہونا چاہیے، جنھوں نے اس سے پہلے کور کمانڈ کی ہوئی ہو، اور خاص طور پر ان کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزی سے متعلق کوئی رپورٹ یا فائل نہ بنی ہو۔

وزارتِ دفاع یہ فائل اور ڈوزئیر وزیرِ اعظم کے دفتر بھیجتی ہے۔ اس تمام تر طریقہ کار کو سمری بھیجنا کہتے ہیں۔ وزیرِ اعظم اس سمری کے ملنے کے بعد اس پر اپنے کمنٹس لکھ کر صدر کو بھیج دیتے ہیں۔

آصف یاسین ملک نے بتایا کہ صدر چاہیں تو اس پر اپنے مشاہدات لکھ کر یا سوال اٹھا کر وزیرِ اعظم سے وضاحت مانگ سکتے ہیں۔ اور اگر چاہیں تو یہ سمری اپنے پاس دس دن کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ ’لیکن زیادہ تر ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔‘

COAS

سمری میں ڈیڈلاک کیوں؟

واضح رہے کہ حال ہی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر عارف علوی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف کی تقرری پر کسی قسم کی تاخیر نہ کریں ورنہ نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’جہاں تک عارف علوی کی بات ہے تو ان کا امتحان پہلے لیا جا چکا ہے کہ آیا وہ پاکستان کے آئین کے ساتھ، عوام کے ساتھ یا جمہوریت کے ساتھ وفاداری نبھائیں گے یا پھر عمران خان صاحب کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائیں گے۔‘

اس بات کی کڑی اس تاثر سے جڑتی ہے جس میں مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ عمران خان ایک مخصوص افسر کے آرمی چیف بننے کے خلاف ہیں۔ جبکہ عمران خان نے اپنے حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ انھیں فرق نہیں پڑتا کہ کون آرمی چیف تعینات ہوتا ہے۔

سابق سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک نے کہا کہ ’اس وقت ہر کوئی اپنی مرضی کا افسر بطور چیف آف سٹاف لانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے یہ تمام تر معاملہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔‘

لیکن اس سمری کو پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟

فوج سے تعلق رکھنے والے ایک سابق افسر نے بتایا کہ ’اس بار ایک نام پر خاصا شور برپا ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ ان کے چنے ہوئے افسر کو صرف اس بات پر من و عن رکھ لیا جائے کیونکہ وہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا مخالف ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ کے 29 نومبر کو ریٹائر ہونے کے بعد انھیں نیا آرمی چیف اِن یونیفارم یعنی وردی میں اور آن ڈیوٹی چاہیے ہو گا۔‘

’آرمی چیف کی تعیناتی پر فوج اور سیاستدانوں میں تگ و دو؟‘

اس سے پہلے کم و بیش ہی آرمی چیف کی تقرری پر اتنی بات چیت اور تبصرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ اور سمری بھیجنے کا طریقہ کار اتنا طُول پکڑتے بھی پہلی بار دیکھا جا رہا ہے۔

وکیل اور صحافی منیزے جہانگیر نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں اور فوج کے درمیان ایک واضح ڈیڈلاک اس بات پر دیکھا جا رہا ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہو گا۔ یہ اب خاصا واضح ہو چکا ہے۔ ورنہ سمری آنے میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں عموماً یہی ہوتا رہا ہے کہ سب ایک ہی پیج سے شروع ہوتے ہیں لیکن پھر الگ الگ صفحوں پر چلے جاتے ہیں۔ اس اتحادی حکومت کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے

کیا نئے آرمی چیف کی تعیناتی پاکستان میں سیاسی بحران ختم کر دے گی؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد پاکستان کا نیا آرمی چیف کون ہو سکتا ہے؟

پاکستان کے آرمی چیفس کے دلچسپ حقائق: کوئی فقط ڈھائی ماہ عہدے پر رہا تو کوئی فوجی سربراہ بنتے ہی گرفتار ہوا

انھوں نے کہا کہ ’اگر کوئی افسر ریٹائر ہونے والے ہوں اور وہ چیف آف سٹاف کی تقرری میں سرِفہرست بھی ہوں تو انھیں ایک ماہ پہلے وائس چیف لگا دینا چاہیے۔ اس سے ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع بھی ہو جاتی۔ اور پھر انھیں آرمی چیف تعینات کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔‘

انھوں نے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں ایسے بھی لوگوں کی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کی، جن کی تقرری کا اعلان تین ماہ پہلے ہو گیا تھا اور ایسے واقعات بھی موجود ہیں کہ آرمی چیف جس دن ریٹائر ہو رہا تھا اسی دن نئے چیف کا اعلان ہو گیا۔ یعنی تین ماہ پہلے بھی اعلان ہو سکتا ہے اور چھ گھنٹے پہلے بھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس بار جو صورتحال بن رہی ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر بحث

سوشل میڈیا پر بھی آج کل لوگوں کی زبان پر صرف ایک ہی سوال ہے یعنی نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور اس ضمن میں ہونے والی ’تاخیر۔‘

صحافی طلعت حسین نے لکھا کہ ’میرے تین دہائیوں کے صحافتی کیریئر میں، میں نے کسی تعیناتی کے لیے اس قسم کی جارحانہ لابنگ اور تگ و دو نہیں ہوتے دیکھی، یہ بہت افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ اور ہم اس تمام تر جھگڑے سے استحکام کی امید رکھتے ہیں!‘

صارف محمد نسیم خان اچکزئی نے لکھا کہ ’ہم نے نا تو تاریخ سے سیکھا ہے اور نہ کبھی سیکھیں گے۔‘

صارف رابعہ اصغر نے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’اُن کے مطابق یہ نیوٹرل ہیں جبکہ ہمارے سامنے تمام تر صورتحال عیاں ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ صورتحال کیا ہوتی اگر یہ سیاسی ہوتے!‘

https://twitter.com/TalatHussain12/status/1594990170000048128?s=20&t=BU-iKa1Wlr9X9LmZMqO8Yg

وزیر اعظم کے معاون خصوصی فہد حسین نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی معمول کے مطابق ہونے کے بعد تحریک انصاف کی مزاحمتی سیاست ماند پڑ جائے گی۔ خان صاحب کی ٹھنڈی میٹھی تقاریر نے اس کا عندیہ دینا شروع کر دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت اور تحریک انصاف میں مذاکرات کا عمل بھی شروع ہو سکتا ہے۔ حکومت آفر کر سکتی ہے کہ خان صاحب کی جماعت قومی اسمبلی میں واپس آئے اور مل کر انتخابی اصلاحات کی جائیں جن کی بنیاد پر الیکشن صاف اور شفاف ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ تحریک انصاف کا پیدا کردہ سیاسی عدم استحکام اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، اور اس کی جگہ نارمل صورتحال جنم لے رہی ہے۔ اس میں ملک کا فائدہ ہے۔ خان صاحب نے سیاسی جوا کھیلا اور ہار گئے۔ ان کی ہار شاید پاکستان کی جیت ہے، اس لیے انھیں برا نہیں منانا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments