ع سے ع تک۔ ۔ ۔


گزشتہ شب دراصل سیاسی، صحافتی تجزیہ نگاروں کے لئے چاند رات سے کم نہ تھی، ہوتی بھی کیوں نہ بھئی آخر کو اتنا انتظار کے بعد وہ خبر ملی جس کے بارے میں نئے سال کے سورج طلوع ہوتے ہی تجزیے، تبصرے، اندازے، پیش گوئیاں شروع کردی گئیں تھیں۔ 2018 کے بعد پاکستان میں بہت کچھ روایت اور معمول سے ہٹ کر ہوتا آ رہا ہے، سادہ الفاظ میں بیان کروں کہ بمثل رویت ہلال کمیٹی کے کہ جس کے چھوٹی عید کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کے اعلان کے لئے 22 کروڑ کے 22 کروڑ کو انتظار ہوتا ہی ہے مگر ویسا ہی انتظار عیدالاضحی کے چاند کے اعلان کے لئے کرنا پڑ رہا ہو جیسے۔ کیونکہ اس دفعہ تو اس ایک تقرری کے لئے (جس کے لئے بقلم عاصمہ شیرازی اب تو وزیراعظم بھی تعینات کیے جانے لگے ہیں ) ابتدائی مراحل یا یوں کہیں کہ روایتی طریقہ کار کا آغاز ہی شروع ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

بات یہاں تک جا پہنچی کہ نون لیگ کے سابقہ وزیراعظم اور سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کو باقاعدہ اپنی مجبوریوں کا رونا رونا پڑا کہ ابھی تو وزیراعظم آفس کو سمری ہی موصول نہیں ہوئی تو آگے والے مراحل کا بھلا کیا آغاز ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں ان کے کہنے کا مقصد تھا کہ بھیا ہم تو تیار بیٹھے ہیں کہ چٹ مہندی پٹ بارات ہو مگر لڑکی والے رشتے کو لئے ہاں کریں تو نہ۔ ان کی اس آہ و بکا کے بعد بحث چیف کون ہو گا سے اس بات پر آ گئی کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ ابھی تک جی ایچ کیو سے سمری تک ہی نہیں بھیجی گئی ہے۔ کسی نے موجودہ حکومت اور آرمی لیڈرشپ میں تناؤ کا شوشہ چھوڑا تو کسی نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ معاملات کسی مخصوص جرنیل کے نام پر ان بن کی وجہ سے لٹک رہے ہیں۔

اب یہ معاملہ پر ہونے والے اتنا ہنگام ہی تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو رات کے سوا بارہ بجے ٹویٹ کر کے عوام کو بتانا پڑا کہ چھ سینئر ترین جرنیل کے ناموں کی سمری بھجوا دی گئی ہے، اب جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اس سے پہلے سمری تو معمول کی کارروائی تھی مگر اب سمری بھی باقاعدہ ایک خبر بن گئی ہے۔ رات سے اب تک اور اس تحریر کے شائع ہونے تک یہ سمری اور اس میں موجود چھ سینئر موسٹ جنرلز کے ناموں ان کے سروس حتی کہ خاندانی پس منظر پر بھی بہت کچھ لکھا، بولا اور کہا جا چکا ہو گا۔

آج کل تو صحافت بھی اپنے معراج پر پہنچی ہوئی ہے کیونکہ آج کل سوشل میڈیا اور ویوز کا دور ہے تو کئی یوٹیوب صحافی متذکرہ جرنیلوں کے بارے میں وہ وہ دور کی کوڑیاں بھی لے آئیں گے کہ جن کا شاید ان جنرلز کو بھی نہ علم ہوں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ میں تندور پر روٹی لینے کے لئے گیا تو مجھے تندور کا مالک بتانے لگ گیا کہ ہاں جی آ گئی اے؟ اب میرے جیسے صحافیوں کے لئے آ گئی اے سے مراد وہ قلیل تنخواہ ہوتی جو خال خال ملتی تو میں نے برجستہ جواب دیا کہ جی اللہ کا شکر ہے 53 دن بعد آہی گئی ہے۔ تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ اللہ والے میں سمری کی بات کر رہا ہوں۔ ساتھ ہی گویا ہوئے کہ کیا کہتے ہیں پھر؟ جنرل عاصم منیر آ رہے ہیں؟ انشاء اللہ وہی آئیں گے کیونکہ وہ حافظ قرآن ہیں۔

اب میں حیرت سے ان کا منہ تکے جا رہا تھا کہ میرے سے زیادہ تو ان کے پاس معلومات ہیں، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ یوٹیوب اور فیس بک پر سینیارٹی لسٹ میں موجود چھ کے چھ لوگوں کی خوبیوں، اہم پوسٹگنز، دوران سروس پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے معلوماتی ویڈیوز دیکھ چکے تھے۔ ویسے ایک طرف جہاں وزیراعظم شہباز شریف کی جاں کسی ایک نام کے انتخاب کے لئے بلب ہے تو وہاں عین کمانڈ کی تبدیلی سے دو دن پہلے راولپنڈی میں ہی دھرنے کی تیاری کیے بیٹھے عمران خان کے بھی صبر کا امتحان طویل ہو رہا ہے۔

اب چاہے قرعہ فال جنرل عاصم منیر کے نام نکلے یا پھر جنرل عامر غیر متوقع طور پرچار ستاروں کے اہل ٹھہریں، مگر ع سے ع تک کے اس جادوئی مثلث نے گول دائروں میں گھومتی ہوئی پاکستانی سیاست، صحافت اور اشرافیہ کو نہ صرف کچھ وقت کے لئے اپنے مرکز سے ہٹنے پر مجبور کیا ہے بلکہ مہنگائی کی چکی میں پستی ہماری جنتا کے لئے بھی نئے نظائر کا اہتمام کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments