آرمی چیف کی تقریر پر ماہرین اور سیاسی رہنماؤں کا مؤقف: ’آرمی چیف نے کہا کہ اب فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ پوری تقریر سیاسی تھی‘


پاکستان کے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کو یوم دفاع سے متعلق منعقدہ ایک تقریب سے طویل خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ بات دہرائی کہ اب فوج غیرسیاسی ہو گئی ہے اور یہ فیصلہ فوجی قیادت نے گذشتہ برس فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔

تاہم انھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ 70 برس سے فوج کی سیاست میں مداخت رہی ہے جو کہ نہ صرف غیرآئینی ہے بلکہ اس سے فوج تنقید کی ضد میں بھی آتی رہی ہے۔

اب ذہن میں یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس اعلان پر فوجی قیادت کس حد عمل پیرا ہو گی؟ یوں تو اس کا جواب خود جنرل باجوہ نے ہی دیا ہے کہ اس بار اس مؤقف پر عملدرآمد ہوتا ہوا بھی نظر آئے گا۔

آرمی چیف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل جو کہا اس پر بات کرتے ہیں ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے سیاسی رہنماؤں اور ماہرین سے کہ وہ آرمی چیف کی اس تقریر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

’آرمی چیف نے کہا کہ اب فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ان کی پوری تقریر سیاسی تھی‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عارفہ نور کہتی ہیں کہ آج کی تقریر میں جنرل قمر باجوہ نے فوج کے مؤقف کو ایک بار پھر دہرایا ہے۔ ان کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ اب فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ پوری تقریر سیاسی تھی۔

ان کے مطابق فوج کا سیاست میں کردار راتوں رات تو ختم نہیں ہو سکتا۔ ان کے خیال میں ابھی بھی فوج کا سیاسی کردار ہے، غیر سیاسی نہیں ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب تک پاور سٹرکچر تبدیل نہیں ہوتا تو اس وقت یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق سیاست کا تعین تو پاور سٹرکچر سے ہوتا ہے جب یہ تبدیل ہی نہیں ہوا تو سیاست کیسے بدل گئی۔

عارفہ نور نے بتایا کہ جنرل باجوہ نے جن متعدد شعبوں میں فوج کے کردار کا ذکر کیا ہے وہ سیاسی امور سے متعلقہ ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی امور اور فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتی ہے۔

واضح رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ‘ریکوڈک کا معاملہ ہو یا کارکے کا جرمانہ، فیٹف کے نقصان ہوں یا فاٹا کا انضمام، سرحد پر باڑ لگانا یا قطر سے سستی گیس منگوانا یا دوست ملکوں سے قرض کا اجرا ہو یا کووڈ کا معاملہ، سیلاب کے دوران امدادی کام ہو یا کچھ اور فوج نے ہمیشہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کیا ہے۔’

انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر کی ایڈیٹر انجم ابراہیم کے خیال میں ابھی بھی نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر مذاکرات ہو رہے ہیں اور جنرل باجوہ چاہتے ہیں کہ ان کی نظر میں جو غیرمتنازع شخصیت ہیں انھیں آرمی چیف بنایا جائے تو پھر یہ سب اہداف حاصل ہو سکیں گے۔

انجم ابراہیم کے مطابق ریٹائرمنٹ پر کی جانے والی تقریر درست تصویر نہیں دکھا سکتی بلکہ اس کے لیے نئی تعیناتی کے بعد جو ہو گا وہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ ان کے مطابق نئے آنے والے فوجی سربراہ اپنی مرضی سے اپنی ٹیم تشکیل دیں گے اور بڑے پیمانے پر تقرریاں اور تبادلے بھی ہوتے نظر آئیں گے، جس کے بعد پتا چلے گا کہ آئندہ حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔

’وہ جنوری 2021 تک سیاسی تھے اور فروری میں غیرسیاسی ہو گئے‘

جنرل باجوہ کی نظر میں فوج پر تنقید کی بڑی وجہ ’گذشتہ 70 سال کی فوج کی سیاست میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے۔ اس لیے پچھلے سال فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد فوج نے فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔’

انھوں نے کہا کہ ‘میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں تاہم اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کے بجائے چند حلقوں نے آرمی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا۔’

انھوں نے کہا کہ ‘فوج نے تو اپنا کیتھراسس شروع کر دیا ہے مجھے امید ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گی۔ ‘ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے۔’

سینیئر صحافی طلعت حسین، جو آجکل نجی ٹی وی چینل سما پر ’ریڈلائن ود طلعت‘ کے نام کی میزبانی بھی کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ قمر باجوہ نے اپنے چھ برس میں سے چار بھرپور سیاسی مداخلت کے گزارے۔ طلعت حسین کے مطابق جنرل باجوہ نے بتایا کہ وہ جنوری تک سیاسی تھے اور پھر فروری میں غیر سیاسی ہو گئے تھے۔

ان کے خیال میں اب اس دعوے کے ثبوت بھی دینا ہوں گے۔

طلعت حسین کے مطابق ’جنوری 2021 سے قبل تحریک انصاف کہتی تھی کہ فوج نیوٹرل ہے جبکہ دیگر جماعتیں ان کے سیاسی کردار پر انگلیاں اٹھاتی تھیں، اب تحریک انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ فوج سیاسی ہو گئی ہے۔ فوج کو اب غیرسیاسی ہونے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘

ان کے مطابق اب ریٹائرمنٹ کے قریب ان کی یہ تقریر روایتی ہے اب جو کرنا ہے نئے فوجی سربراہ نے ہی کرنا ہے۔
ان کے مطابق جنرل باجوہ کے خطاب میں نئے آنے والوں کے لیے مشورے ہیں۔

طلعت حسین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ فوج پر تنقید کرنے والوں کا لہجہ تلخ ہے اور اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا مگر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ کون لوگ ہیں۔

آرمی چیف جنرل باجوہ

’سنہ 2018 کے عام انتخابات اور تحریک عدم انتخابات دو علیحدہ چیزیں ہیں‘

جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ سنہ 2018 کے الیکشن میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور سنہ 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔’

انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ‘ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہو گا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ رائے عامہ احترام کا نام ہے۔’

اب یہ سیاسی نوعیت کے الزامات ہیں تو اس کے لیے سیاسی رہنماؤں سے بہتر جواب شاید کوئی نہیں دے سکتا۔
جب بی بی سی نے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعطم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے بہتر ہے کہ وہ اس پر انفرادی حیثیت میں کچھ نہ کہیں اور پارٹی اس پر اپنا کوئی مؤقف دے۔

ن لیگ سے ہی تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے آرمی چیف کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2008 میں یہ اعلان جنرل کیانی نے کیا تھا کہ فوج غیرسیاسی ہو گئی ہے، اور اس کے بعد تمام افسران کو سرکاری محکموں سے واپس بلا لیا گیا تھا۔ ان کے مطابق سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور کے اختتام پر یہ پالیسی ایک بار پھر تبدیل ہوتی نظر آئی۔

سینیٹر افنان کے مطابق سیاسی امور میں عدم مداخلت والی یہ پالیسی تب ہی تسلسل سے آگے بڑھے گی جب اسے ہر سطح پر لے جایا جائے گا۔ اس کے لیے انھوں نے ’ٹرکل ڈاؤن‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے وضاحت کی کہ جب کاکول میں کیڈٹس کو یہ پڑھایا جائے گا کہ فوج کے سیاسی کردار کی وجہ سے ملک کا بہت نقصان ہوا ہے تو پھر شاید آئندہ ایسی مداخلت کا رستہ بند ہو سکے۔

آرٹی ایس سے متعلق بات کرتے ہوئے سینیٹر افنان اللہ نے بتایا کہ یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ آر ٹی ایس بیٹھا تھا، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ ان کے مطابق سب حقائق سامنے ہیں کہ ہمیں نتائج والے فارم 45 نہیں دیے گئے، گنتی کے وقت ہمارے پولنگ ایجنٹ اندر موجود نہیں تھے۔

تاہم ان کے مطابق عدم اعتماد سیاسی جماعتوں نے مل کر کامیاب بنایا اور اس میں فوج کا کردار نہیں تھا۔ ان کے دعوے کے مطابق فوج کا سیاسی کردار تو تب ہوتا جب تحریک انصاف کے لوگ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتے۔

پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما حسن مرتضیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ جہاں تک تعلق ہے سنہ 2018 کے عام انتخابات کا اور 2022 کی تحریک عدم اعتماد کا تو یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کے مطابق سنہ 2018 میں صرف آر ٹی ایس ہی نہیں بیٹھا تھا بلکہ جس طرح سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا، جس طرح نظام کو کمزور کیا گیا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور ایسے کرداروں کے نام بھی سب کے سامنے ہیں۔

ان کے مطابق آج اگر وہ نیوٹرل ہیں تو ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ نیوٹرل ہیں۔

اپنی بات بات کی وضاحت میں انھوں نے کہا کہ ’اب نہ اس طرح کے فیصلے آ رہے ہیں، نہ اس طرح کی فون کالز آ رہی ہیں۔ افواج پاکستان پیشہ ور ہیں۔ ان کا جمہوریت کے لیے حصہ بھی سامنے ہے۔ عدم اعتماد کے بعد جو امپورٹڈ بیانیہ بنایا گیا اب تو عمران خان نہ صرف اپنے بیانیے سے یوٹرن لیا، بلکہ انحراف بھی کیا ہے۔

تحریک انصاف نے آرمی چیف کے خطاب کو کیسے دیکھا؟

اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ تحریک انصاف نے اس خطاب کو ڈاکٹر شیریں مزاری کی نظر سے دیکھا ہے۔

سڑکوں پر احتجاج کرتی تحریک انصاف کے لیے تو فوجی قیادت کی طرف سے ہر خطاب، ٹویٹ اور پریس ریلیز اور پریس کانفرس اب خاصی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس خطاب کو بھی تحریک انصاف کے رہنماؤں نے نہ صرف غور سے سنا بلکہ کھری کھری سنا بھی دیں۔

یہ اور بات ہے کہ آج ہی کہ خطاب میں جنرل باجوہ نے نام لیے بغیر کہا کہ ’تنقید سیاسی پارٹیوں کا حق ہے لیکن الفاظ کا چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتی جانی چاہیے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ‘ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور ابھی اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔’ انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ ’کیا یہ ہوسکتا ہے کہ بیرون سازش پر فوج خاموش رہے، یہ گناہ کبیرہ ہے۔‘

آرمی چیف کے مطابق فوج کی سینیئر لیڈر شپ کو نامناسب القابات سے پکارا گیا۔

جنرل باجوہ نے موضوع سمیٹتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی اصلاح کر رہے ہیں، امید ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی اصلاح کریں گی۔

تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے آرمی چیف کو آڑے ہاتھوں لیا۔

انھوں نے ان کی تقریر کے چند کلپ ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ اس مؤقف کو رد کر کے کوئی اپنے آپ کو اغوا، ٹارچر اور اس سے بھی برے سلوک کے خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ حقیقت یہی ہے کہ امریکی سازش ایک حقیقت تھی اور سائفر اس کا بڑا ثبوت ہے۔ انھوں نے کہا ڈیٹا کے ساتھ ایک متبادل مؤقف بھی پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔
انھوں نے کہا کہ قوم کے لیے اس سائفر کو بھی عام کر دیا جائے۔

شیریں مزاری نے جنرل باجوہ سے کچھ تاریخی حوالوں سے بھی ایسے اختلاف کیا ہے جیسے وہ یونیورسٹی میں اپنی کلاس میں کسی طالبعلم کو درست سبق یاد دلا رہی ہوں۔

شریں مزاری نے ٹویٹ کیا کہ یہ سیاسی تقسیم اور سیاسی عزائم تھے جن کی وجہ سے اس پارٹی کو اقتدار نہیں دیا گیا تھا جو انتخابات جیت کر آئی تھی، یاد رکھیں اس وقت اقتدار میں ایک فوجی آمر تھا اور مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی نے سرینڈر کیا تھا جس کے بعد بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی گئی۔۔۔ جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments