ترکی کے بحری جنگی جہازوں سے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کتنی مضبوط ہو گی اور انڈیا کو اس سے کیا مسئلہ ہے؟


ملجم بحری جہاز
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی دعوت پر اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ دو روزہ سرکاری دورے پر ترکی روانہ ہو گئے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر اردوغان استنبول شپ یارڈ میں پاکستان بحریہ کے لیے چار ملجم (MILGEM) کارویٹ بحری جہازوں میں سے تیسرے جہاز پی این ایس خیبر کا افتتاح کریں گے۔

پاکستان میں سرکاری حکام کے مطابق بعد ازاں دونوں رہنما دوطرفہ تعلقات، علاقائی صورتحال اور مشترکہ دلچسپی کے اُمور پرتبادلہ خیال اور دونوں ممالک کے درمیان موجودہ دفاعی اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے پر بات کریں گے۔

دو روزہ سرکاری دورے کے دوران دونوں ممالک کے سربراہان مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کریں گے۔

تاہم اس دورے کی خاص بات پاکستان بحریہ کے لیے مشترکہ طور پر تیار کیے گئے بحری جنگی جہاز کا افتتاح ہو گا۔

ترکی کا ملجم بحری جنگی جہاز پروگرام

ملجم منصوبہ ترکی کا قومی بحری جنگی جہازوں کی تیاری کا پروگرام ہے، جسے ترک بحریہ سنبھالتی ہے۔ ان جنگی جہازوں کو فوجی نگرانی، انٹیلیجنس مشنز، قبل از وقت وارننگ، اینٹی سب میرین وارفیئر اور دیگر مشنز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے ریسرچ ایسوسی ایٹ، تیمور فہد خان پاکستان اور ترکی کے تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی بحریہ کے لیے ملجم جنگی جہاز بنانے کا منصوبہ 2018 میں ترکی کی ایک فرم کو دیا گیا تھا۔

گذشتہ برس اگست میں اس منصوبے کے پہلے جنگی جہاز پی این ایس بابر کی افتتاحی تقریب استنبول میں منعقد ہوئی تھی۔ جبکہ دوسرے جنگی جہاز پی این ایس بدر کا افتتاح مئی 2022 میں کراچی میں کیا گیا۔

ملجم بحری جہاز

پاکستان بحریہ کی دفاعی طاقت میں اضافہ

تیمور فہد خان کے مطابق یہ تکنیکی طور پر پاکستان نیوی فلیٹ کے لیے جدید ترین جنگی جہاز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی کے مشترکہ طور پر بنائے گئے یہ جنگی جہاز پاکستانی بحریہ کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں جو کہ پاکستان کی میری ٹائم سکیورٹی کی صلاحیت کو بڑھانے میں اہم ثابت ہوں گے اور سندھ اور بلوچستان کی ساحلی سرحد کو اہم سکیورٹی فراہم کریں گے۔

تیمور فہد کا کہنا ہے کہ ’یہ علامتی طور پر اہم ہے اور ساتھ ہی یہ منصوبہ دو مسلم ممالک کے درمیان تاریخی دوستی اور برادرانہ تعلقات کی ایک مثال بھی ہے۔‘

شہباز شریف اور رجب طیب اردوغان کے درمیان نجی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور علاقائی صورتحال سمیت کئی امور پر بات چیت کا امکان ہے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ترکی کے کاروباری برادری سے بھی ملاقات کریں گے اور استنبول میں قیام کے دوران وہ ای سی او ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ بینک (ای ٹی ڈی بی) کے صدر سے بھی ملاقات کریں گے۔

 شہباز شریف انھیں پاکستان میں سرمایہ کاری، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے۔

اگرچہ تیمور فہد کا کہنا ہے کہ اس دورے میں کسی بھی پراجیکٹ پر ایم او یو پر دستخط کرنے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔

پاکستان بحریہ

یہ بھی پڑھیے

پاکستان اور ترکی ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں، پاک ترک تعلقات پر ایک نظر

انڈیا، ترکی تعلقات: انڈین مخالفت کے باوجود بین الاقوامی فورمز پر صدر اردوغان ہمیشہ کشمیر کی بات کیوں کرتے ہیں؟

ترکی انڈیا کا دوست ہے یا دشمن؟

جے 10 سی: پاکستان کو ’بحیرہ عرب میں سبقت‘ دلوانے والے جے 10 سی طیارے کن خصوصیات کے حامل ہیں؟

پاکستان اور ترکی کے تاریخی تعلقات

پاکستان اور ترکی کے تعلقات کی بنیاد تقسیم برصغیر اور پاکستان کے قیام کے فوراً بعد رکھی گئی۔ اس رشتے کی بنیاد مشترکہ مسلم وراثت، روایات اور بھائی چارہ تھی۔

اور اس بھائی چارے کی جڑیں تاریخ میں موجود ہیں۔ ترکی کی جدوجہد آزادی کو برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے دی گئی حمایت ترک عوام کے ذہنوں میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔

دونوں ممالک زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون اور عوام کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی رہی ہیں۔ تاریخی طور پر دونوں ممالک نے کشمیر اور قبرص جیسے مسائل پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اقتصادی تعاون اب بھی بہت محدود ہے۔

شہباز، اردوغان کی ذاتی دوستی

شہباز، اردوغان

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ذاتی نوعیت کے اچھے اور قریبی تعلقات ہیں۔ اپریل 2022 میں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے اور اس سے پہلے متعدد مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب بننے سے قبل بھی دونوں رہنما متعدد بار ملاقات کر چکے ہیں۔

اس سال مئی میں پاکستان کے وزیراعظم نے ترکی کا دورہ کیا اور شنگھائی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کے موقع پر اردوغان سے ملاقات کی۔

صدر اردوغان نے فروری 2020 میں پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ جہاں انھوں نے پاکستان اور ترکی کے اعلیٰ سطح کے سٹریٹجک تعاون کونسل کے چھٹے اجلاس کی صدارت کی۔

ترکی اور پاکستان کی دوستی سے انڈیا کو درپیش چیلنج؟

مودی

اب تک پاکستان اور چین کی دوستی انڈیا کے لیے چیلنج تھی، اب پاکستان اور ترکی کا بھائی چارہ بھی انڈیا کو پریشان کر رہا ہے۔

گذشتہ سال مارچ میں اکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ترکی اور پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے فیصلے نے ان قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے کہ بحیرۂ روم اور جنوبی ایشیا میں انڈیا کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

ترکی کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف جنگ زدہ ملک افغانستان میں اقتصادی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔ پاکستان اور ترکی دونوں مشترکہ طور پر ایران کے راستے ریلوے لائن کو توسیع دے رہے ہیں۔

مارچ 2021 میں سعودی گزٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا تھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان جنوبی ایشیا میں پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک اتحاد کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

اکنامک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان ترکی کے تیار کردہ ملجم (MILGEM) بحری  جنگی جہاز وہاں کے سرکاری دفاعی ٹھیکیدار ایسفاٹ (ASFAT) سے خریدنے کے عمل میں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے 30 ٹی-129  ATAK ہیلی کاپٹر بھی منگوائے ہیں۔

ترکی سے پاکستان کی یہ دفاعی سازو سامان کی خریداری تین ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان نے مشرقی بحیرۂ روم میں ترکی کی گیس کی تلاش کی مہم کی بھی حمایت کی۔ ترکی بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔ فروری 2020 میں اردوغان نے کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا ترکی کے لیے۔ آرمینیا آذربائیجان تنازعے میں بھی پاکستان نے ترکی کی حمایت کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments