صبر کرنا جبر سہنا ہے


خود کو سمجھانا مشکل کام ہے۔ لیکن یہ مشکل کام مجھے روز کرنا ہوتا ہے کب تک کرنا ہے، اس کا مجھے نہیں، اسے پتہ ہے جس کے ہاتھوں میری ڈور ہے۔ سانس روکے، آنسوؤں کا جام پیتے اپنے کمرے کی چار دیواری کو حال دل سنانے کے لیے بہت ہمت چاہیے ہوتی ہے۔ اینٹ پتھر سے بنی ان دیواروں سے کاش کبھی کوئی میرا دکھ سنے، تو انھیں پتہ چلے یہ دیواریں میرا غم سنتے سنتے خود غم سے مٹی ہو گئی ہیں۔ میک اپ زدہ چہرے کی گہری تہوں کے پیچھے چہرے کا کرب چھپائے جب میں ہنستی ہوں تو کسی کو میری آنکھ کی نمی نظر نہیں آتی۔

اس لیے نہیں کہ وہ میرے چہرے پہ چڑھے نقاب کے عادی ہو چکے ہیں۔ یا میری آنکھوں میں موجود آنسو دیکھ نہیں سکتے۔ بلکہ اس لیے کہ لوگ میک اپ کی گہری تہوں کے پیچھے چھپے جھریوں زدہ بدصورت چہرے کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ لوگ میرے چہرے پہ رقم دکھ کی داستان کو پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ اپنی خوشیوں میں میری اداسی کا رنگ گھولنا نہیں چاہتے۔ کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر لوگ یا تو اس پر ترس کھاتے ہیں یا درگزر کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔

لوگوں کو یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ درگزر کرنا ہے، لیکن یہ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کام انھیں خود بھی کرنا ہے دوسروں کو صبر کرو کہنا بہت آسان کام ہے۔ میں نے دیکھا ہے، لب کھولنے کی ہمت کرو تو لوگ یہ کہہ کر ’تم تنہا نہیں‘ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، تمھارا حوصلہ بڑا ہے خدا تمھیں اجر دے گا۔ وہ دوسروں کو صبر کا مشورہ دیتے ہیں لیکن مصیبت سے باہر نکلنے کا نہیں کہتے۔

صبر کے ساتھ زندگی گزارنا حوصلے کی نہیں بزدلی کی نشانی ہے۔ صبر کرنے والے بظاہر باہمت دکھاتے ہیں، لیکن سچ پوچھیے تو وہ رج کے بزدل ہوتے ہیں۔ اگر ہمت والے ہوں تو زندگی کو صبر کے ساتھ نہیں، زندگی سے مقابلہ کر کے گزاریں۔ تکلیفوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے نہیں۔ اپنی بزدلی کو صبر کا نام دے اجر توقع کرنا حماقت ہے۔ اور اجر لے کے کرنا ہی کیا جب لمحہ موجود عذاب بنا ہو تو پھر بعد کے اجر کا سوچنا فضول ہے۔ زیادہ تر صبر اجر کی وجہ سے نہیں بزدلی کی وجہ سے کیا جاتا ہے لوگوں نے معاشرے کی فرسودہ روایات اور بزدلی کو اجر کا نام دے رکھا ہے۔ جب جان پہ بنی ہو تو مشکل سے نکلنے کی بجائے اجر کی آس لگا لی جائے۔ صبر کرنا جبر سہنا ہے۔ لمحہ لمحہ مرنے سے ایک ہی جھٹکے میں موت کا ذائقہ چھکنا کہیں بہتر ہوتا ہے۔ لیکن مرنے کے لیے بھی ہمت درکار ہوتی ہے۔

اور بزدل لوگ مرنے کا بھی بس سوچتے رہتے ہیں۔ وہ بس یہی سوچتے ہیں کہ جب اتنے بندے روز مرتے ہیں اگر مجھ کو موت آ جائے تو اچھا ہے۔ وہ خدا سے التجائیں کرتے ہیں، کہ دکھ کرب اور اذیت اب اور نہیں جھیلی جاتی، بے بسی بھی اب برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔ میرے دکھوں کو اب لگام ڈال، یا پھر میرے اندر وہ حوصلہ پیدا کر کہ تیری نافرمانی کرتے ہوئے خود کو مار دوں۔ دیکھو میں نے تیرے ہر حکم پہ سر جھکایا ہے۔ اس لیے اب اجازت دے کہ تیری نافرمانی بھی کروں۔ لیکن اصل میں انسان کو جو کام خود کرنا چاہیے اس کی امید دوسروں سے لگا لیتا ہے۔ سارے لوگ مل کر مصیبت زدہ کو بزدل بنا دیتے ہیں۔ زخم کا علاج کرنے کا نہیں کہتے، زخم کے ناسور بننے کے انتظار کرنے کا کہتے ہیں۔

دنیا میں کچھ لوگ دوسروں کا صرف صبر آزمانے کے لیے آتے ہیں۔ ایسے لوگ خود کسی قابل نہیں ہوتے اور دوسروں کو کسی قابل چھوڑتے نہیں۔ کچھ لوگ زندگی کی آزمائش بن کر آتے ہیں۔ ان کے نہ ہونے سے اکثر لوگوں کی زندگیاں آسان ہوجائیں لیکن اگر یہ ہوں تو دوسروں کی زندگی مشکل بنائے رکھتے ہیں۔ شکی، بے حس، بے رحم تنگ نظر، تنگ ذہن ایسے لوگوں کے ساتھ جو زندگی گزارتے ہیں انھیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کس مصیبت میں ہیں۔

جب کسی انسان میں بے حسی، ، بے رحمی ضرورت سے زیادہ ہو تو اس کو برداشت کرنا عقلمندی نہیں بزدلی کی نشانی ہے

ایسے لوگ دوست ہوں یا جیون ساتھی، ان سے نبھا کرنے کی بجائے قطع تعلق کرلینا چاہیے۔ دو لوگ جب ایک رشتے میں بندھتے ہیں تو پھر یہ معاشرہ عورت پہ فرض کر دیتا ہے کہ تم نے مر کر ہی اس رشتے سے نجات پانی ہے۔ اب مرد جیسا بھی رویہ رکھے اسے عورت کی قسمت قرار دے دیا جاتا ہے۔ مرد کا عورت پہ ہاتھ اٹھانا اس کی مردانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شوہر نکما ہو، شکی ہو یا شرابی عورت کو یہی باور کروایا جاتا ہے کہ اسی کے ساتھ گزارہ کرنا ہے۔ جب زندگی عذاب ہو تو پھر اجر کا نہیں، حالات کو بدلنے کا سوچنا چاہیے۔

اور اگر عورت کو اپنے حالات بدلنا ہیں، اپنی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرنا ہیں تو پھر عورت کو اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ یہ طے کرنا ہو گا کہ صبر کے نام پر جبر نہیں سہنا۔ اسے معاشرے کی فرسودہ رسم و رواج سے بغاوت کرنا ہوگی۔ بغاوت ہی حالات کا رخ بدل سکتی ہے۔ صبر کرنے کا دوسرا نام جبر سہنا ہے۔ جبر کی زنجیروں سے عورت کو اپنا آپ آزاد کروانا ہو گا ہے۔ خود کو اس بات پہ قائل کرنا ہو گا کہ اسے اجر نہیں اجرت چاہیے، اپنی محنت کی اجرت۔

ہر محنت کش کو وقت پہ اجرت ملنی چاہیے۔ جیسے مرد گھر سے باہر کام کرنے کا معاوضہ طلب کرتا ہے تو ایک عورت بھی خانگی زندگی کے لیے محنت کرتی ہے تو اسے بھی اجرت ملنی چاہیے۔ اجر کے نام ٹرخا دینا مناسب نہیں۔ ہر عورت کو اس کی محنت کی اجرت ملنی چاہیے۔ عورت کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ اور جو وقت پر اجرت نہ دے اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

میں ایک عورت ہوں میں بھی دن رات کام کرتی ہوں اور مجھے میرا حق چاہیے اجر نہیں۔ مجھے اپنے لیے آواز اٹھانی ہے مجھے فیصلہ کرنا ہے کہ میں کسی شقی القلب کے ساتھ زندگی گزارنے پہ مجبور نہ کی جاؤں، مجھے یہ شعور ہر عورت میں بیدار کرنا ہے کہ وہ دیواروں کو گریہ زاری نہ سنائے، بلکہ انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ اپنی محرومیوں کو معاشرے کی عطا کردہ مجبوریوں کے سپرد مت کرے۔

عورت کو معاشرے کی فرسودہ زنجیروں کو توڑنا ہو گا۔ عورت کو طے کرنا ہو گا کہ اسے دوسروں کی خاطر نہیں اپنے لیے جینا ہے۔ اسے خود کو بے چارگیوں کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہو گا عورت کو اپنی جنگ خود لڑنا ہوگی۔ اگر عورت زندہ رہنا چاہتی ہے تو پھر اسے خود کو روز مرنے سے بچانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments