پی ٹی آئی راولپنڈی جلسہ: پنجاب حکومت اپنی ہی جماعت پر سخت پابندیاں کیوں عائد کر رہی ہے؟


پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان زخمی ہونے کے بعد پہلی مرتبہ کسی عوامی اجتماع کی قیادت کے لیے سنیچر کے روز صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی پہنچ رہے ہیں جہاں ان کی جماعت کے کارکنان لانگ مارچ کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔  

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ جسے ’آزادی مارچ‘ کا نام دیا گیا تھا چند روز قبل اسلام آباد روات تک پہنچا تھا جہاں فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہاں مارچ رکنے کے بعد 26 نومبر کو دوبارہ راولپنڈی سے شروع ہو گا جہاں سے اس کی قیادت عمران خان خود کریں گے۔ 

پاکستان تحریکِ انصاف کے قیادت کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے سے طویل وقفہ خاص طور پر اس لیے رکھا گیا تھا کہ عمران خان صحتیاب ہو کر خود لانگ مارچ کی قیادت کے لیے پہنچ پائیں۔  

راولپنڈی کے اس اجتماع میں پی ٹی آئی کی قیادت نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آگے اسلام آباد کی طرف جائیں گے، راولپنڈی ہی میں کچھ روز قیام کریں گے یا ایک ہی روز بعد مارچ کو ختم کر دیا جائے گا۔   

تاہم سنیچر کے روز ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں دیگر سیکیورٹی ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے کارکنان جلسے کے بعد جلسہ گاہ کو مکمل طور پر خالی کر دیں گے۔‘

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی سنیچر کے روز ہی اپنے لانگ مارچ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ڈی سی راولپنڈی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’اسی شرط پر پی ٹی آئی کو فیص آباد کے قریب جلسہ کرنے کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔‘

یاد رہے کہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جبکہ پنجاب کے وزیراعلٰی پرویز الٰہی کا تعلق ان کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق سے ہے۔ 

PTI

راولپنڈی انتظامیہ کی جانب سے اعلامیے میں یہ بھی ہدایات کی گئی ہیں کہ ’جلسے کے دوران اداروں اور عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی ہو گی۔ ریاست مخالف نعرے بازی کی بالکل اجازت نہیں ہو گی‘ اور یہ کہ کسی قسم کے جانی نقصان کی مکمل ذمہ داری جلسے کے منتظمین پر ہو گی۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ماضی کے کئی جلسوں اور احتجاجی جلوسوں کے دوران شرکا نعرے بازی اور بینرز کی صورت میں پاکستانی فوج سمیت دیگر کئی اداروں کی شخصیات کو تنقید کا نشانہ بناتے رہیں ہیں۔

لگ بھگ 56 نکات پر مشتمل اعلامیے میں سیکیورٹی کی جو ہدایات جاری کی گئی ہیں ان میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو انتظامیہ کی جانب سے طے شدہ روٹ کی پابندی کرنے کا کہا گیا ہے۔ انہیں ’سن روف‘ والی گاڑی نہ استعمال کرنے کا کہا گیا ہے۔

ساتھ ہی انتظامیہ نے منتظمیں کو جلسہ گاہ میں یا اس کے قریب ڈرون اڑانے کی اجازت نہیں دی۔ ماضی کے تمام جلسوں اور حالیہ لانگ مارچ کے دوران بھی خاص طور پی ٹی آئی کا میڈیا سیل ڈرون کا خاص طور پر استعمال کرتا ہے جس کے ذریعے یہ دکھانا آسان ہوتا ہے کہ جلسے میں لوگوں کی کتنی تعداد شریک ہے۔

راولپنڈی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اعلامیہ پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ باہم مشاورت اور رضامندی کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ یا احتجاجی جلسوں کے حوالے سے ایسی سخت ہدایات پہلے سامنے نہیں آئیں۔

تو سوال یہ کے کہ اب پنجاب حکومت نے اپنی ہی جماعت پر اتنی پابندیاں کیوں عائد کی ہیں۔

PTI

کیا پی ٹی آئی جلسے کے بعد لانگ مارچ ختم کر دے گی؟  

راولپنڈی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اعلامیے میں رکھی گئی سخت شرائط کا حساس تنصیبات اور قائدین کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ 26 نومبر ہی کو جلسہ ختم کر دیا جائے گا۔  

یعنی جلسے کے بعد دھرنا نہیں ہو گا اور پی ٹی آئی کے کارکنان جلسہ گاہ کو خالی کر دیں گے۔ 

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کے وزیرِاعلٰی کے مشیر برائے داخلہ امور اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ’اس کا فیصلہ تو چیئرمین عمران خان کریں گے اور وہ 26 نومبر ہی کو جلسے کے دوران کریں گے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی انتظامیہ نے تجویز دی ہے کہ اجتماع کو جلسے کے بعد اسی روز ختم کر دیا جائے۔ عمر چیمہ کے مطابق راولپنڈی انتظامیہ کی طرف سے یہ تجویز اس تناظر میں سامنے آئی ہے کہ اس سے اگلے روز پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان راولپنڈی میں کرکٹ میچ کھیلا جانا ہے۔  

’جلسے کا مقام کرکٹ سٹیڈیم سے قریب ہے اس لیے انتظامیہ نے یہ تجویز دی ہے تاہم عمران خان فیصلہ کریں گے کہ 26 نومبر کے جلسے کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔‘  

پنجاب کی انتظامیہ اپنی ہی جماعت پر سخت پابندیاں کیوں عائد کر رہی ہے؟ 

راولپنڈی انتظامیہ کے اعلامیے کے مطابق ریاست مخالف نعرے بازی، اداروں اور عدلیہ کے خلاف تقاریر کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نہ ہی شرکا کو جلسہ گاہ کے علاوہ کسی عمارت میں داخلے کی اجازت ہو گی اور نہ ہی منتظمین اقبال پارک میں کسی کارکن کو جلسے کے بعد ٹھرائیں گے۔ 

انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اعلامیے کو پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ ہونے والا تحریری معاہدہ تصور کیا جائے۔ 

وزیرِاعلٰی پنجاب کے مشیر برائے داخلہ کے مطابق ’پنجاب میں حکومت بیشک پی ٹی آئی کی اپنی ہے تاہم انتظامیہ کی بھی اپنی ایس او پیز ہوتی ہیں جن پر وہ عمل کرتے ہیں۔‘  

عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کے ہر سیاسی اجتماع سے قبل انتظامیہ اپنی ہدایات جاری کرتی ہے۔ ’یہ بھی اسی نوعیت کی ہدایات ہیں جو راولپنڈی انتظامیہ نے جاری کی ہیں۔ یہ ایک ضابطے کی کارروائی ہے جو انتظامیہ ہر سیاسی اجتماع وغیرہ سے پہلے جاری کرتی ہے۔‘  

عمر سرفراز چیمہ کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر یا اس کے جلسہ جلوس کرنے کے حق پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی کسی طریقے سے انھیں روکا گیا ہے۔  

PTI

’ڈرون وغیرہ کی پابندی سیکیورٹی کی وجہ سے ہے‘  

سابق گورنر پنجاب اور پنجاب کے مشیرِ داخلہ عمر سرفراز چیمہ کے مطابق راولپنڈی انتظامیہ کی طرف سے پی ٹی آئی کے 26 نومبر کے جلسے میں ڈرون اڑانے پر پابندی کا فیصلہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کیا گیا۔  

’یہ فیصلہ سیکیورٹی خدشات کی بنا پر کیا گیا ہے لیکن اس کے علاوہ کسی قسم کی میڈیا کوریج وغیرہ پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔‘ 

پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات کے مطابق سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جان کو سخت خطرہ ہے۔ ’ان کی جان کو لاحق خطرات سے آگاہ ہیں اور خاص طور پر ان پر ہونے والے حملے کے بعد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔‘  

عمر سرفراز چیمہ کے مطابق راولپنڈی انتظامیہ کا اعلامیہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی ایک ذمہ دار جماعت ہے جو سینکڑوں جلسے اور اجتماع کروا چکی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس صورتحال میں کیسے انتظام کرنا ہے۔‘ 

PTI

’ہم کوئی غیر آئینی کام نہیں کریں گے‘ 

پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما اور وزیرِاعلٰی پنجاب کی مشیر مشرت جمشید چیمہ نے راولپنڈی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت کوئی غیر آئینی کام نہیں کرے گی۔ 

’ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے جس کی ہمارے ملک کا آئین یا قانون میں اجازت نہیں ہے۔ لیکن جو ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے اس سے ہمیں نہیں روکا جا سکتا ہے۔‘  

مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے اس سے پہلے بھی کبھی کسی ادارے کے خلاف کوئی تقریر یا بیان بازی نہیں کی۔ ’ہاں شخصیات کے خلاف تنقید ہوتی ہے اور اس کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کو راولپنڈی کے جلسے کے بعد دھرنا دینا ہے یا لانگ مارچ کا اختتام کرنا ہے اس کا فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کریں گے۔ ’عمران خان اسی دن جلسے میں ہی اعلان کریں گے کہ آگے کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔‘ مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اعلان پر عملدرآمد ہو گا۔ 

کیا پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت کے درمیان خلا ہے؟ 

پی ٹی آئی کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے اس تاثر کی تردید کی کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور صوبہ پنجاب کی حکومت جس کے سربراہ چوہدری پرویز الٰہی ہیں، ان کے درمیان کسی قسم کا خلا پایا جاتا ہے۔

’پنجاب میں ہماری اپنی جماعت کی حکومت ہے اور پرویز الٰہی ہماری جماعت ہی کی وجہ سے پنجاب کے وزیرِاعلٰی ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی میں کوئی خلا پایا جاتا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی اور پنجاب کے وزیرِاعلٰی پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کے درمیان جمعے کے روز لاہور میں ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد ایک بیان میں وزیرِاعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’جو مرضی آئے یا جائے، پنجاب میں کوئی سیاسی مہم جوئی کامیاب نہیں ہو گی۔‘

’پہلے بھی دعوے کیے گئے لیکن مخالفین کو ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملا اور اب بھی مخالفین ناکام رہیں گے۔‘ پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت ’حقیقی آزادی مارچ‘ کے شرکا کی حفاظت کا فریضہ بطور احسن انجام دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments