ایران اور ویلز کے میچ کے دوران حکومت کے حامی اور مخالف مداحوں کا ٹکراؤ


ایران
جمعے کو قطر میں ایران اور ویلز کے درمیان فٹ بال میچ میں ایرانی حکومت کے حامی اور مخالف مداحوں کے درمیان ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو گئی۔ 

احتجاج کرنے والے چند مداحوں نے کہا کہ ان کے پرچم ان سے لے لیے گئے جبکہ کچھ دیگر کا کہنا ہے کہ انھیں ہراساں کیا گیا۔ 

سٹیڈیم میں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے ایرانی حکومت مخالف نعروں پر مشتمل شرٹس اور دیگر اشیا بھی ضبط کر لیں۔ 

واضح رہے کہ جمعے کو ہونے والے میچ میں ایران نے ویلز کو شکست دے کر ورلڈ کپ کے اب تک کے بڑے اپ سیٹس میں سے ایک کیا ہے۔ 

اُنھوں نے ویلز کو دو صفر سے شکست دی۔ 

ایران میں ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے مظاہرے جاری ہیں۔ 

تہران کی اخلاقی پولیس نے مہسا امینی کو مبینہ طور پر اپنے بال درست انداز میں نہ ڈھکنے کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔ تین دن بعد وہ پولیس حراست میں ہلاک ہو گئیں۔ 

ملک بھر میں جاری مظاہروں میں لوگوں نے مزید آزادی سمیت حکومت کی برطرفی جیسے مطالبات کیے ہیں۔ 

حکومت نے جواباً مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے جس میں کئی لوگوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ 

جمعے کو ایران کے ویلز کے خلاف ورلڈ کپ مقابلے میں کچھ مظاہرین کے انقلابِ اسلامی سے پہلے کے ایرانی پرچم حکومت کے حامی مداحوں نے چھین لیے۔ 

احمد بن علی سٹیڈیم میں کھیلے گئے اس میچ میں کچھ لوگوں نے ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے فقرے پر مشتمل ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔ یہ فقرہ ایرانی حکومت کے خلاف مظاہروں کا اہم نعرہ بن چکا ہے۔ 

ایران

ایک ایرانی تماشائی نے الزام عائد کیا کہ قطری پولیس نے حکومت کے حامی مظاہرین کی شکایت پر اُنھیں اپنے بازوؤں اور سینے سے ایرانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے مظاہرین کے نام مٹانے کو کہا۔ 

ایک اور خاتون نے کہا کہ اُنھیں مہسا امینی کی تصویر کی حامل ٹی شرٹ پہن کر میچ دیکھنے سے روک دیا گیا۔ 

مردوں کے ایک گروہ کو ان خواتین پر جملے کستے ہوئے دیکھا گیا جو غیر ملکی پریس کو مظاہروں سے متعلق انٹرویوز دے رہی تھیں۔ 

کچھ لوگوں نے اپنے موبائلز سے ان خواتین کی ویڈیوز بنائیں جن پر لفظی حملے کیے جا رہے تھے جبکہ مرد ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ چلا رہے تھے۔ 

میچ کے آغاز سے قبل جب ایرانی کھلاڑیوں نے قومی ترانہ گایا تو کچھ لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ 

ایران

اس سے قبل پیر کو انگلینڈ کے خلاف میچ سے قبل کھلاڑی بظاہر حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت میں خاموش کھڑے رہے تھے۔ 

سٹیڈیم میں کچھ تماشائیوں نے سابق ایرانی فٹ بال کھلاڑی ووریا غفوری کے نام والا ہیٹ پہن رکھا تھا۔ 

وہ ایرانی حکومت کے ناقد ہیں اور اُنھیں جمعرات کو ایرانی حکام نے پروپیگنڈا پھیلانے کے الزام میں حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ 

وہ اپنی قومی ٹیم کی 28 مرتبہ قیادت کر چکے ہیں اور 2018 کے ورلڈ کپ میں بھی ٹیم کا حصہ تھے۔ 2022 کے ورلڈ کپ کی ٹیم میں ان کے نہ ہونے پر کئی لوگوں کو حیرانی ہوئی۔ 

رواں ہفتے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایران میں حکومت مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے حوالے سے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے قیام کی منظوری دی تھی۔ 

اقوامِ متحدہ نے کہا تھا کہ ایران بحرانی حالت میں ہے اور 300 لوگ قتل کیے جا چکے ہیں جبکہ 14 ہزار دیگر کو گذشتہ نو ہفتوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ 

ایران نے اسے نامعقول سیاسی مؤقف قرار دے کر مسترد کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments