پاکستان کے 17 ویں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ”توقعات“


بظاہر جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس بنانے کے بعد ملک میں اہم عسکری عہدوں پر تعیناتی کے بارے میں جہاں ”ہیجانی“ کیفیت ختم ہو گئی ہے وہاں ”سازشی تھیوریاں اور قیاس آرائیاں“ بھی دم توڑ گئی پچھلے 7 ماہ سے ”اپنا“ آرمی چیف لگانے کی غیر ضروری بحث نے اس اہم منصب پر تقرری کو متنازع بنا دیا تھا کچھ حلقوں کی جانب سے دانستہ اس اہم منصب پر تقرری پر جی بھر کر سیاست کی گئی حتیٰ کہ وزیر اعظم کی جانب سے صدر مملکت کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ سٹاف کمیٹی کی تقرری کے لئے بھجوائی جانے والی سمری پر کھیل کھیلنے کا عندیہ دے کر ریاستی اداروں کے لئے پریشان کن صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی فوج کے نئے سپہ سالار کی تقرری کو کرکٹ کے کھیل سے تشبیہ سراسر زیادتی اور ریاستی اداروں کے ساتھ سنگین مذاق تھا سمری موصول ہونے کے بعد صدر مملکت جس تیزرفتاری سے عمران کے ”بلاوے“ پر زمان پارک لاہور پہنچے اس سے سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ خدا خیر کرے کہیں اہم عسکری عہدوں پر تعیناتی پر آئینی بحران پیدا ہو جائے گا لیکن صدر مملکت صبح کو وزیر اعظم کے طیارے میں جن قدموں سے لاہور گئے ان ہی قدموں پر شام کو اسلام آباد پہنچ کر پہلا کام سمری پر دستخط کرنے کا کیا جس کے بعد جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی تقرری بطور آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا اس کے کچھ دیر بعد ہی دونوں جرنیلوں نے روایت کے مطابق صدر مملکت اور وزیر اعظم کے ہاں حاضری بھی دے دی سب نے دیکھا کہ جرنیلوں نے وزیر اعظم کو جہاں سیلوٹ کیا وہاں وزیر اعظم نے بھی آگے بڑھ کر اپنے آفس کے دروازے پر ان کا خیر مقدم کیا ممکن ہے ”سازشی کہانیاں“ گھڑنے والے عناصر کو باہمی عزت و احترام کے رشتہ پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑ اہو۔

وزیر اعظم نے سینیارٹی کے مطابق تقرریاں کر کے ”اپنا“ آرمی چیف لگانے کے پراپیگنڈا کو دفن کر دیا پچھلے 6، 7 ماہ سے ان اہم عہدوں کی تقرری پر کچھ عناصر نے خوب سیاست کر کے عوام کی رات کی نیندیں حرام کر دی تھیں کئی دنوں بعد لوگوں نے 24 نومبر 2022 ء کی رات سکون سے گزاری سر دست پراپیگنڈا مہم کے لئے استعمال ہونے والے ”یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا“ کا محاذ خاموش ہے فی الحال ان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ کس طرح فوج پر تنقید کا جواز پیدا کریں اگرچہ جنرل قمر جاوید باجوہ یوم شہداء و یوم دفاع کی تقریب دکھی دل سے ریاستی اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کا ذکر کیا لیکن ان کے صبر و تحمل کو داد دینے کو جی چاہتا ہے انہوں نے اپنی ذات اور فوج کے خلاف پراپیگنڈا کو برداشت کیا اور محض ایک شخص کی حکومت نہ بچانے کے ”جرم“ میں میر جعفر اور میر صادق کے القابات سنے نیوٹرل کو جانوروں سے تشبیہ دی گئی لیکن فوج نے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔

اب نئی عسکری قیادت آ گئی ہے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے بے مہار کارندوں کو فوج کے صبر کا مزید امتحان نہیں لینا چاہیے حکومت کی طرف سے صدر مملکت کو بھی یہ باور کرا دیا گیا تھا حکومت صدر کے منصب کا احترام کرتی ہے یہ ان کے پاس آخری موقع ہے وہ آئینی عمل میں رکاوٹ بن کر اپنے خلاف تحریک مواخذہ کو دعوت نہ دیں 1973 ء کے آئین میں 18 وین ترامیم کے صدر کا عہدہ صرف علامتی رہ گیا ہے جیسا کہ دنیا بھر کے جن ممالک میں ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی ”کا نظام رائج ہے وہاں صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل درآمد کا پابند ہوتا ہے

صدر عارف علوی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ضرور ہیں لیکن وہ خود آئین کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں یہی وجہ جب ان کو سمری موصول ہوئی تو انہوں عمران خان کے سامنے تابع محمل بننے کی بجائے ایک پوزیشن لی اور اہم عسکری تقرریوں کو متنازع نہیں بنایا بلکہ آئینی تقاضوں کے سامنے سر تسلیم کر دیا اگرچہ فوج کی طرف سے 5 کی بجائے 6 جرنیلوں کے نام آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری کے لئے تجویز کیے گئے تھے لیکن دو سینئر جرنیلوں کی اعلیٰ عہدوں پر تقرری سے کوئی سپر سیڈ ہوا اور نہ ہی کسی کا حق مارا گیا اس لئے دیگر چار جرنیل ریٹائرمنٹ لینے کی بجائے نئی کمان کے تحت بخوشی کام کریں گے اور اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر گھر چلے جائیں گے جن 6 جرنیلوں کے نام تجویز کیے گئے ہیں ان میں کسی کے بارے میں پیشہ وارانہ اہلیت بارے کوئی سوال نہیں اٹھا گیا البتہ ایک آدھ جرنیل پر نواز شریف کو کچھ تحفظات تھے عام تاثر ہے کہ نواز شریف ”اپنا“ آرمی چیف لانا چاہتے ہیں اس کے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کو بار بار مشاورت کے لئے ”لندن یاترا“ کرنا پڑی لیکن عملی طور پر دیکھا جائے آرمی چیف کی تقرری کے عمل کے دوران تو نواز شریف ملکی صورت حال سے لاتعلق ہو کر یورپی ممالک میں ”سیر سپاٹے“ کر رہے تھے عمران خان نے اپنی مرضی کا آرمی چیف لانے کے لئے جو حکومت اور فوج پر دباؤ بڑھایا تھا اچانک آرمی چیف کی تقرری کو ”بھاری پتھر“ کے طور پر چوم کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ ان کا آرمی چیف کی تقرری سے کوئی لینا دینا نہیں جس کو مرضی آرمی چیف لگا دیں قبول کر لوں گا جب انہوں نے آرمی چیف کی تقرری کے لئے 6 جرنیلوں کے ناموں پر مشتمل سمری میں جنرل عاصم منیر کا نام سر فہرست دیکھا تو عمران خان کا بیان آ گیا کہ ”میں اور صدر عارف علوی عسکری قیادت کے ناموں پر مشاورت کریں گے اور آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے کھیلیں گے“ لیکن صدر مملکت نے عمران خان پر واضح کر دیا کہ آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتی کو ایک دو روز تک موخر تو کیا جا سکتا ہے لیکن روکا نہیں جا سکتا لہذا صدر نے 24 نومبر 2022 ء کو ہی سمری پر دستخط کر کے سرپرائز دیا ان کے بارے میں تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے جہاں آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کر کے ان کو فری ہینڈ دے دیا وہاں پی ٹی آئی نے بھی اپنے اعلامیہ میں محتاط انداز میں عسکری قیادت کی تقرری کا خیر مقدم کیا ہے یہ بات کہی جا سکتی ہے تمام سیاسی جماعتوں نے عسکری قیادت کے انتخاب کو قبول کیا ہے

اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور جنرل عاصم منیر اور ساحر شمشاد مرزا دونوں کا تعلق خطہ پوٹھوہار سے ہے جنرل عاصم منیر ڈھیری حسن آباد راولپنڈی اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کا تعلق چکوال کے موضع ملہال مغلاں کے متوسط گھرانوں سے ہے سب سے سینئر جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف اور دوسرے نمبر پر جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا گیا جنرل عاصم منیر سیدھے سادھے strait forward) ) فوجی افسر ہیں جنرل ساحر شمشاد نے تو فوج اور یونٹ کو اپنا وارث قراردیا تھا ساحر شمشاد بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس شہرت پائی ہے نئی عسکری قیادت سے عوام نے بے پناہ توقعات وابستہ کر رکھی دعا ہے کہ نئی و عسکری قیادت عوام کی توقعات پر پورا اترے جنرل باجوہ نے یوم شہدا ء و دفاع کی تقریب میں جہاں عمران خان کے سازش کے بیانیہ جھوٹا قرار دیا وہاں آر ٹی ایس کی بندش میں جیتی ہوئی جماعت کو ”سلیکٹیڈ“ اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں آنے والی حکومت کو ”امپورٹڈ“ کہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس معاملہ کی انکوائری ہونی چاہیے کہ عمران خان کی حکومت کو ”سلیکٹڈ“ کیوں کہا جا تا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments