گمان کی سہاگنیں


چڑیل کا عرف عام میں مترادف عورت ہے، ایک ایسی عورت جو اپنی خوشی اور آسانی کے لئے کچھ کر گزرے۔ نہ بھی کرے مگر کچھ کر گزرنے کی خواہش ہی اس کو چڑیل کے منصب پر فائز کر دیتی ہے۔

سمندر کے کناروں پر بنے گھر مہنگے ہوا کرتے ہیں اور رات گئے غیر مرئی مخلوقات کا ساحل پر مٹر گشت آسان ہوتا ہے۔ یوں مہنگے گھر اور سستی چہل قدمی لوک داستانوں میں مہنگی پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ لوک داستانوں کی ولن اول چڑیل ہی ہے۔ دنیا میں تمام تر برائیاں پھیلانے کا ادارہ شیطانیت ہے تو ایک آدمی کے ہاتھ میں مگر فتنہ عورت یعنی چڑیل ہے۔ خیر یہ بھی چھوڑیے، ہمارے یہاں قصوں داستانوں سنی سنائی باتوں میں پراسرار گھنگھرو پہنے سہاگن کا کثرت سے ذکر ہے، جس پر بیتی گئی داستانوں کا سب سردیوں میں رضائیوں اور لحافوں میں سر چھپائے چسکے لے لے کر سنتے ہیں۔

یہ پراسرار، بدن پر بجلی سرسراتی سرخ جوڑا پہنے سہاگن ہم سب کی مانی جانی بی چڑیل ہی ہیں۔ ان کے نام سے ہم سب عورتوں کو بہتیری بار پکارا جا چکا ہے۔

اکثر رات کے اگلے پہر ساحلوں پر کچھ سائے، ہیولے، چہرے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں، جن میں اکثر تو شان سے ڈگمگاتی عورتیں دکھتی ہیں، جی جی وہی ہماری بی چڑیل۔ ہمیں چڑیلوں کی نسبت سے سنائی جانے والی کہانیاں ویسے بھی بہت بھلی اور دلچسپ معلوم ہوتی ہیں۔ ہر خاندان میں ایک داستان ضرور نسل در نسل چلتی ہے جس میں کسی فرد کو کسی چڑیل نے مارا ہوتا ہے۔

اب دیکھیے، راجوری، جموں کے ایک پہاڑی گاؤں میں تقریباً آج سے لگ بھگ نوے سال قبل میری پرنانی کو چڑیل نے ہی تو مارا تھا۔ برف سے لدے پہاڑوں کی اوٹ میں، چاندنی کی کرنوں میں ایک بی چڑیل میرے پرنانا کے ساتھ بیٹھ کر حقہ پیتی تھیں۔ بڑی سی چاندی کی نتھ پہنتی پریوں سی نرم و نازک، پہاڑی حسن کی مالکن میری پرنانی جو اس وقت نوجوان خاتون تھیں کو اسی چڑیل نے مار ڈالا۔ پھر سننے کو آتا ہے کہ ایک بار چڑیل نے کسی بچے کا رات گئے کلیجہ ہی نکال لیا اور پھر ایک پیر صاحب سے ڈر کر واپس بھی رکھ دیا۔ کوہ مردار یا مردہ پہاڑی سے بھی ایک ایسی ہی پتھر دل عورت کی داستان منسوب کی جاتی ہے جہاں ایک چڑیل اپنے سو بچے کھا گئی۔ پھر آپ تھوڑا فن اور ادب کے قدردان شہروں کی جانب آئیں تو وہاں آپ کو چڑیلیں گھروں میں پرانی فلموں کے نغمے گنگناتی بھی نظر آئیں گی۔

میدانی علاقوں میں دیہاتوں، جنگلوں، پہاڑی علاقوں کی پگڈنڈیوں، اور سمندری علاقوں میں ساحلوں کی دہشت کو فقط ان نسوانی ہیئت کی چڑیل نامی مخلوق سے ہی جوڑا جاتا ہے۔ ساحلی شہروں کی نسبت سے ہمیشہ ایک کہانی منسوب کی جاتی ہے جہاں رات گئے ایک عورت چہل قدمی کرتی ہے۔

چہ مگوئیاں تو کچھ یہ ہیں کہ شب کی ظلمتوں میں لہکتی سمندر کی ہواؤں کے دوش ململ کے آنچل اڑاتی، فضا میں طلسماتی اور صوتی سر بکھیرتی، مدہوش کرتی، ہوا کے ساز بھی جیسے اس کے تابع ہوں ایک لڑکی عروسی لباس زیب تن کیے نظر آتی ہے۔ یہ دلہن کے روپ میں ہوش کے چوباروں پر اپنے ہونے کا احساس جگائے رکھتی ہے۔ جادوئی سا خوف ویرانوں میں اس کی راج نیتی کا شور بھی مچائے رکھتا ہے۔ پراسراریت سمائے ساحلی شہروں میں اکثر یہ دلہن دیکھی جاتی ہے۔

صرف ساحلی شہروں میں ہی نہیں، دیہاتوں اور جنگلوں کی پلیوں پر اس کے راج کا کم چرچا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دلہن علاقے کی ثقافت کے تحت ہی لباس کا چناؤ کرتی ہے۔ بمبئی میں یہ ساڑھی پہنتی ہے تو کراچی میں لہنگا وہ بھی گہرا چمکتا، دمکتا سرخ۔ میدانی علاقوں میں کسی کسی کو پراندہ پہنے بھی دکھتی ہے اور شمال میں تو اس کے ماتھے پر تل بھی گاڑھے نظر آتے ہیں۔

ہندوستان میں یہ بندی لگاتی ہے تو پاکستان میں یہ اکثر بنا ٹیکے کے۔ ہے نا باکمال صنف، لاجواب اسلوب۔ چڑیل کے چڑیل ہونے کو مزید مقبول کرانا ہو تو اس کو لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی کاسنی دوپٹے والی رادھا دیوی کا نام دے دو۔ کیا آپ نے کبھی کسی چڑیل کا اسلامی نام سنا ہے، نہیں نا؟

اب چونکے سرخ شادی کے لباس کے علاوہ بھی بہت سے رنگ دستیاب ہیں اور مانگ میں بھی ہیں تو شاید اس دلہن کے لباس کا چناؤ بھی بدل گیا ہو یا سرے سے انتخاب کی اجازت ہی نہ دی گئی ہو۔

مگر یہ دلہن بھی بہت شریر ہے۔ ایک تو دلہن بن کر نظر آتی ہے وہ بھی رات گئے۔ یہ دلہن کبھی عورتوں کو نہیں دکھتی، اگر دکھتی تو یہ عورت ہی نہ ہوتی۔ ماہ جبیں سا چہرہ، ماہ وش سی آنکھیں کہ چاند زمیں پر آ گیا ہو، رنگت ایسی کے ہاتھ لگائے میلی ہو اور جو ہاتھ لگائے میلی رنگت والی نہ ہو وہ دل کش کہاں ہوتی ہے؟

گوٹے کناری کے زور پر زرق برق لہنگے اور پلو اڑاتی یہ دل ربا بھی نہ سڑک کنارے ایسے جلوہ گر ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کی سوچ ثابت، آنکھیں خیرہ اور بدن ساکت ہو جاتے ہیں۔ حنا کی خوشبو سے تر اس کے پیر جب گھنگروؤں کی تال زمین پر بچھاتے ہیں تو اچھے اچھے پہلوان خوف سے چت ہو جائیں۔ بھلا، کوئی تھوڑی نا کہہ رہا کہ یہ کسی کے حسرت بھرے تخیلات کی شرارت ہے۔ جو جسے دیکھنا چاہے، اس کے بھٹکتے شعور اور لاشعور کی جنبشیں اسے وہی دکھا بھی دیتی ہیں۔ کوئی اس کے قریب پہنچ بھی جائے تو اس کے جلوے کی تاب نہیں لا سکتا۔ سب کو اپنے پاس بلاتی ہے مگر کسی کو پاس آنے نہیں دیتی۔ اس کو یہ آگہی بھی شاید کسی نے دے رکھی ہوگی۔

اکثر ناریوں کی یہ منت رہتی ہے کہ ان کو کوئی بھوت پریت نظر آ جائے مگر دھمکاتے، مارتے، آگ کی شیشی، کلہاڑی تھامے، غصے اور انا میں چہرے کا رنگ بدلتے، بد زبانی کرتے انساں نظر نہ آئیں۔

سوال یہ ہے کہ عورتوں کو سہرا سجائے، سونے کی تاروں میں پیوست کالی شیر وانی پہنے، سامنے کی جیب میں سرخ ریشمی رومال چسپاں کیے ، دھلے کپڑوں کی طرح مہکتے، تراشی داڑھی اور گھنگریالے بالوں والے دلہے کیوں نظر نہیں آتے؟ یہ بھی کوئی انصاف مساوات کی بات ہوئی بھلا؟ مردوں کو ان کے وہم و گمان سے عطاعات ہوں اور عورت ہمیشہ کی طرح یہاں بھی شرف محرومی سے ہمکنار رہے؟

یا ہم یوں کیوں نہیں کہہ دیتے کہ خواہشیں وہی روپ دھار لیتی ہیں جن کا شوق سے وہم کیا جائے۔ عورت کو سجا سنورا دلہا درکار نہیں، بس سلامتی سے جینے کا گمان رکھنا چاہتی ہے۔ شاید ان کے شعور لاشعور کی الجھنیں ان ہیجانی خواہشوں سے بڑھ کر بقا کی آس اور یاس میں ہی جھڑپتی رہتی ہیں۔ ہم تو اس رادھا کا بھی غم کرتے ہیں اور کوہ مردار کی اس چڑیل کا جس کے بچے نجانے کس نے اچک لئے۔

کورنگی کریک میں رات گئے ایک پکار گونجتی سنائی دیتی تھی۔ ہر رات کو ہوا ایک پکار لئے سرسراتی رہتی۔ ایک نوجوان لڑکی کسی اسد کو پکارتی تھی۔

اسد! اسد! اسد!

ہوا کے دوش سے درد اور التجا سے لبریز یہ آہ و بکا تیز اور مدھم ہوتی رہتی۔ اس پکار سے خوف نہیں آتا تھا، دل دہل سا جاتا تھا۔

معلوم نہیں، ساحلی شہروں اور دیہاتوں میں بھٹکتی ان دلہنوں کے سہاگ کس نے لوٹے مگر حسن و جمال کی یہ بل کھاتی ہیولہ مائل، تصورات کی حسرت زدہ شاہکار جن کی زلفیں لمبی گھنی، سمندری ہوا کے عوض لہلاتی، سونے کی چوڑیوں کی کھنک سے رات کی خاموشی کی سطح پر خوف کی لہریں بناتی گمان کی یہ سہاگنیں آج تلک بھٹکتی نہیں تھکی نہ اپنی منزل کو پہنچی ہیں جیسے بیچ آسماں اور زمیں کے حصار میں قید کر دی گئیں ہوں۔ انصاف کی تلاش میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments