عوامی مسائل اور میڈیا


بمطابق ادارہ شماریات رواں سال مہنگائی کی شرح 30۔ 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور مہنگائی اگلے سال بھی جوں کی توں رہے گی۔ یوں تو بے شمار پہلو ہیں رونے کو مگر صاحب مسند کی پہلو تہی دیکھ آنسو بھی اپنی روانی کا گھر، پتہ بھول کسی خشک و بنجر تہہ میں جم گئے ہیں۔ ملکی معاشی صورت حال جو منظر پیش کر رہی ہے اس کی تعبیر بیاباں کا پتہ دیتی ہے۔ رواں سال بھی ماضی کی طرح بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار، پیداوار میں مسلسل کمی، توانائی اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور شرح نمو 2 فیصد رکھنے اور رہنے کا اعلان اور امکان عام آدمی کا زندہ رہنے کا امکان زائل کر چکا ہے۔

فیض نے خوب ترجمانی کی ہماری صحرا نوردی کی۔
اس مال کی دھن میں پھرتے ہیں
تاجر بھی بہت رہزن بھی کئی
ہے چور نگر یاں، مفلس کی
گر جان بچی تو آن گئی۔

وطن عزیز میں یوں تو سب کچھ ہے شماریات کے لیے مگر عام آدمی کی بہتری، جان کے تحفظ، عزت نفس کی عترت، عفت کی معابی کی خاطر سوائے نعروں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ موجودہ وقت میں جہاں عام آدمی اس فکر میں ہے کے عزت سے اپنی چار دیواری کا تقدس کیسے بحال رکھے، کیسے حلال روزگار سے اپنے کنبے کی کفالت کرے؟ جو مہنگائی کا سیلاب عام آدمی کی زندگی کی حرارت کو جامد کر چکا ہے اس سیلاب کی آمد کی آگہی میں اور روک تھام میں کون اس کا ساتھ دے؟

ان تمام تر حالات میں شہری میڈیا کو اپنی ترجمانی کے لیے ستون سمجھتا ہے۔ عام آدمی سمجھتا ہے کے میڈیا اس کی آواز بروقت اقتدار کے ایوانوں میں پہنچائے گا اور اقتدار پر براجمان شاہ عام آدمی کے مصائب کا مداوا کریں گے۔ مگر دیکھنے میں کجو آیا ہے وہ قابل اشاعت بھی کہاں۔ حالیہ دنوں میں ہمارا میڈیا جو عوام کو ایک عجیب ہیجان میں مبتلا کیے ہوئے ہے نے اپنی روایت برقرار رکھی، ماضی قریب کے سیلاب زدگان کی قسم پرسی چھوڑ آسمان میں پیچا بازی شروع کر رکھی ہے۔

حالیہ سیلاب میں جو لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ان کی آباد کاری کا کیا ہوا؟ وفاقی حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ صوبائی حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ بیرونی ممالک نے جو امداد کی تاحال اس سے کتنے لوگوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ فائل کی تلاش سے یکسر منحرف صحافت ہفتہ وار راشن جاری کرتی ہے اور عوام کو گمبھیر معاملات میں الجھائے ان کے مسائل کو دوگنا کرتی ہے۔

عوامی مسائل کو چھوڑ موجود وقت میں صحافی توجہ کے مرکز کچھ مسائل درج ذیل ہیں۔

آرمی چیف کی تعیناتی، فیفا عالمی کپ، جوئے لینڈ، مورگن فری مین، فیض آباد جلسہ، عمران خان کا پلاسٹر وغیرہ۔

انوار شعور نے خوب کہا۔
آرمی چیف کا تقرر تو
خیر و خوبی سے ہو گیا صاحب
چاہیے اب مباحثوں کے لیے
کوئی شوشہ ہمیں نیا صاحب

بجائے اس کے کے فائل کی تلاش کی جائے، نشاندہی کی جائے فائل کون ہے؟ جو غیر اہم معاملات نہ صرف پیدا کیے ہوئے ہے /ہیں۔ فائل کو عوام کی عدالت میں لایا جائے کے کون ہے جو ایسی ترجیحات جو عام آدمی سے تعلق نہیں رکھتی کو عام کر رہا ہے۔ کون ہے جو عوام کی قسم پرسی اور اضطرابی عالم کا ذمہ دار ہے؟ میڈیا عوام کو نت نئے تجربات، انکشافات اور لغویات میں الجھائے ہووے ہے۔

کاغذی کارروائی میں ملک زرعی ہے لیکن کسانوں کو کیا مشکلات ہیں، پیداوار عمل میں بہتری کی بجائے تنزلی کی کیا وجوہات ہیں، حکومتی سرپرستی کسان کو کس حد تک میسر ہے۔ پیداواری عمل میں تیزی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کیوں ہے زمینی کٹاؤ کا تدارک کیا ہے؟ ان تمام معاملات کو خارج از بحث کر کے میڈیا سیاستدانوں کے سگار سلگانے سے زلفیں لہرانے تک کے تمام منظر رپورٹ کرتا ہے مگر اصل مسائل جن سے عام آدمی کا تعلق ہے وہ کہیں ملکی ٹرائی اینگل میں زمین برد کر دیے گئے ہیں۔

عام آدمی کے لیے ہوش کا گھونٹ یہی ہو گا کے ہر آدمی اپنا نگہبان خود بنے۔ اپنے آپ کو اشرافیہ کی دی ہوئی اور پھیلائی ہوئی سازشی گتھیوں سے خود کو خودی محفوظ رکھے۔ عوام کی بھلائی اسی میں ہے کے خود کو ہمہ وقت اپوزیشن میں رکھیں اور حکومت وقت کو مسلسل نگرانی میں رکھے۔ حکومت وقت کے منفی اقدامات مبنی بر خیال اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنائیں اور ٹھوس اقدامات کی توصیف کی جائے۔ سب سے گھناؤنا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب عوام خود کو اقتدار میں سمجھ لیتے ہیں اور اپنے ہی چنے ہوئے نمائندگان کے ترجمان بن بیٹھتے ہیں اور ان کی عدم کارکردگی کو اپنے مباحث سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام جب تک کارکردگی کا حساب نہیں لیں گے اور خود کو کسی نمائندے کا ترجمان نہیں سمجھے گی تب تک سیاسی بندوبست میں عوام کے حقوق کی فراہمی اولین ترجیح پر نہیں ہوگی۔

سیاست میں اور انتظامی معاملات میں ہمارا قومی مزاج اس امر پر پختہ ہو گیا ہے کے محض مکالمے کی ڈھارس کے لیے مثالیں مغربی معاشرے کی دی جائیں جہاں کبھی کینیڈا کا وزیر اعظم عام آدمی کے سوالوں کا جواب دہ ہوتا ہے اور کہیں امریکی کانگرس مین جنتا کی عدالت میں نبرد آزما ہوتا ہے، مثالوں کے لیے مسلم خلافت کے نظام میں خلیفہ کی جواب دہی کے واقعات بھی سنائے اور دہرائے جاتے ہیں مگر عملاً جب ان واقعات کو اپنا کر سیاست دانوں کی جواب طلبی کا وقت آئے یا عملاً انتظامی کارکردگی کی بات ہو تو عوام میں سے ہی کچھ کو سیاست دانوں کا ہرکارہ بنا دیا جاتا ہے جس سے جواب دہی کا سلسلہ منقطع ہی رہتا ہے۔

عوامی مسائل جو ہمہ وقت میڈیا اور عوامی مباحث کی توجہ کے طلبگار ہیں میں تعلیم، صحت، بیروزگاری، بد امنی، بد انتظامی، مہنگائی اور نئی قانون سازی ہیں۔ اگر ان معاملات کو لہذا بھر عدم توجہ کا نشانہ بنائے جائے اور پھر کسی بھی طرف سے عوام کی حکمرانی، عوام کے ترجمانی کا نعرے لگائیں جائیں تو ایسی آوازوں کو آگے بڑھ کر دھتکارنا ہم سب کی زمہ داری ہے۔

یقیناً ایک عام آدمی محض اپنی بساط پر یہ لڑائی نہیں لڑ سکتا۔ اس لڑائی میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور نہ صرف محض اجاگر کرنے بلکہ ان مسائل کی مکمل سنوائی تک اور حکومتی لائے عمل تک عوام اور میڈیا کو ان مسائل کی گونج کو ابدی صدا میں بحال رکھنے کے لیے یک آواز رہنا ہو گا۔ ورنہ میڈیا مالکان اپنی ذاتی ترجیحی بنیادوں پر کسی افسر کی تعیناتی کو عوام کے زخموں کی اکسیر بنا کر پیش کریں گے تو کبھی عالمی فٹبال مقابلے تریاق کے طور پر پیش ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments