جو ٹوٹا نہیں، وہ بنے گا کیسے؟


زندگی مشکل ہے ناممکن نہیں۔ اکثر لوگ زندگی کی تلخیوں کی وجہ سے اس قدر مایوس اور پریشان ہو نا شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت سے ہی انکاری ہو جاتے ہیں۔ اور زندگی کے نشیب و فراز سے کنارہ کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہوتی ہے، لیکن بہت کم ہوتے ہیں جو اس درد اور ذہنی اذیت کو برداشت کر پاتے ہیں۔ جو یہ کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے پاتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو نہیں کر پاتے وہ ناکام رہتے ہیں۔

یہ تحریر دو سال قبل کووڈ 19 کے دنوں میں لکھی تھی۔ گزشتہ دنوں فیس بک کی میموری میں سے ملی تو سوچا ”ہم سب“ کے لئے شیئر کرنی چاہیے۔ زندگی جب مشکل لگے، رک سی جائے، تکلیف دہ لگے، امتحان لے اور رونے پر مجبور کردے، تو پریشان ہونے، مایوس ہونے، دکھی اور افسردہ ہونے کے سوا انسان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ ہر طرف بے چارگی اور ناممکنات کے بادل چھائے ہوتے ہیں۔ کوئی جی ہاں کوئی بھی اچھی خبر اور امید باقی نہ رہے، اپنے تو پہلے ہی اور تو پرائے بھی ساتھ چھوڑ دیں۔

زندگی کے سفر میں تنہائی، رسوائی اور تاریکی کے سوا کچھ نہ محسوس ہو تو یاد رکھیں۔ آپ کامیابی کی جانب بڑھ رہے ہیں، آپ تبدیلی اور بڑی کامیابی کی جانب چل پڑے ہیں۔ ایسے مشکل، تکلیف دہ امتحان انسانوں کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ عام انسانوں کے امتحانات ہیں۔ عالمی شہریت یافتہ باکسر محمد علی نے کیا خوب اس بارے میں کہا ہے کہ اگر مضبوط بننا چاہتے تو اکیلے چلو۔ یہ ان سر پھرے اور ڈگر سے ہٹ کر چلنے والے لوگوں کا راستہ ہے جس پر چل کر ہی ہر انسان کامیابی، خود آگاہی اور خود شناسی کے عمل سے گزرتا ہے۔

یہ ایک قدرتی عمل ہے یہ کامیابی، خوشحالی اور بحالی کا عمل ہے۔ جو اس عمل سے اس راستہ سے انکار کرتے ہیں وہ اس عمل کے ثمرات سے نا واقف رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ایسے حالات سے گھبراتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں جن کے جتنے بڑے خوب اور ارادے ہوتے ہیں انہیں اتنی سخت اور زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ سفر اور عمل آپ کی زندگی کا کامیاب اور یادگار سفر بن جائے گا۔ اپنی صلاحیتوں پر بھروسا رکھیں، یاد کریں وہ وقت جب آپ نے اپنی زندگی کے مشکل ترین لمحات کو بڑے احسن طریقے سے ہینڈل کیا تھا۔

کچھ پانے کے لئے، اپنی ذات کی تلاش کے لئے، اپنی قدروں کی پہچان کے لئے اپنی ذات کی شناخت کے لئے ٹوٹنے کا عمل لازم ہے۔ جو ٹوٹنے کے لئے تیار نہیں وہ جوڑنے، کچھ بننے کے لئے کیسے تیار ہو گا؟ جو بکھرنے کے لئے تیار نہیں سنبھالنے کے لئے کیسے تیار ہو گا؟ ابھی وقت ہے ظالم، ابھی ٹوٹ جا تو سنبھل کے لئے وقت مل جائے گا ورنہ ساری زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہی رہے گا۔ اپنا ایک شعر آپ کی نظر کر رہا ہوں۔

ع: وہ مجھ سے خود کو تو رٹا گیا میں خود کو خود سے جوڑتا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments