بالفور اعلان اور ورسائی معاہدے کے بعد کی عرب دنیا


بالفور اعلامیہ شاید تاریخ انسانی کی سب سے متنازع ترین دستاویز، کم ازکم ہمارے لئے ضرور ہے، ایک طرف عربوں سے کیے گئے وعدے جو سلطنت عثمانیہ کے خلاف ساتھ دینے کی شرط پر کیے گئے تھے اور بھلا دیے گئے، وعدوں سے کچھ اس طرح خوبصورتی سے انحراف کیا گیا کے سمجھنے اور پڑھنے والے آج تک حیران ہیں، ہاشمی جو عرب بغاوت کے بعد شاید خود کو تمام عرب دنیا کا بے تاج بادشاہ سمجھ بیٹھے تھے، کس طرح مرکزی منظر (عرب) سے خوبصورتی سے راستے سے ہٹا دیے گئے، پھر جب منظر پر ہی نہیں رہے تو ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی حیثیت ہی کیا ٹھہری، رجیم بدلی، وعدے ختم ہوئے، 1924 میں سلطنت عثمانیہ کے بعد اپنی خلافت کے اعلان کرنے والے شریف حسین ابن علی کو موجودہ سعودی رجیم کے ہاتھوں شکست ہوئی اس کے وارثوں نے تھوڑے کو بہت سمجھا، اور موجودہ اردن میں برطانوی اعانت کے ساتھ نئی سلطنت کی بنیاد رکھی، بعض تاریخی حوالوں میں یہ لکھا ہے کہ شریف حسین ابن علی نے ورسائی معاہدے اور اعلان بالفور کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے، اور شاید خلافت کا اعلان بھی اسی لیے کیا تھا کہ کسی ممکنہ خطرناک صورتحال سے نبرد آزما ہوا جائے، برطانیہ میں جن ہمدردوں کا آسرا تھا وہ انھوں نے آنکھیں پھیر لیں، پھر جو کیا اس کی قیمت ادا تو کرنی پڑی، آل سعود آ گئے اور چھا گئے۔

آزادی انمول ہوتی ہے اگر ہوتی ہے، یقیناً اس کا بدل تھوڑی یا کم آزادی بھی نہیں، کیا شریف مکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ عربوں کے لئے آزادی کا تحفہ لائی، یا یہ دھوکا تھا، آج شریف حسین ابن علی اردن میں جب ان کو یاد کیا جاتا ہے تو کس حوالے سے کس طرح، بطور امیر، بطور بادشاہ یا بطور خلیفہ، حجاز کی بادشاہت تو یقیناً انھوں نے قائم کی تھی، تحقیق کے دوران دو شواہد ملے، ایک کتاب بنام پیپرز آف ال شریف حسین ابن علی پی ڈی ایف  پر ملی، یہ مختصر کتاب ہے، اور اردن میں ہی چھپی، دوسرا حوالہ اردن کے اخبار جارڈن ٹائمز کا ہے جہاں شریف حسین کے لئے مکہ کے امیر اور حجاز کے بادشاہ کے الفاظ استعمال کیے گئے، شاید خلیفہ کا لفظ مصلحتاً حصہ نہیں بنایا گیا۔

بریٹین نیکا انسائیکلو پیڈیا میں یہ لکھا ہے شریف حسین نے معاہدہ ورسائی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور خلافت کا اعلان کیا تھا، جس پر آل سعود نے حجاز پر حملہ کیا اور شریف حسین ابن علی کو حجاز سے پسپا ہونا پڑا، اوپر پہلے ریفرنس کے صفحہ نمبر 5 میں بھی شریف حسین کے ساتھ
King of Arabs and Caliph of Muslims
کے الفاظ لکھے ہیں، پڑھنے والوں کو کسی الجھن میں نہیں ڈالنا چاہتا، شریف حسین 1924 سے 1931 تک قبرص میں جلاوطن رہے۔

آغاز کہانی جولائی 1915 میں شریف حسین ابن علی کے مصر میں برطانوی ہائی کمشنر کے خطوط کے تبادلے سے ہوا، گزشتہ بلاگ جو لارنس آف عربیہ کے حوالے سے لکھا، مختصراً قصہ بیان کیا، عرب بغاوت کے بعد کیا ہوا، میری رائے میں ہاشمیوں کی جب تک ضرورت تھی وہ اچھے تھے، جیسے ہی انھوں نے اپنی آزادی کے حق یعنی فیصلہ سازی کا سوچا، ان کے لئے دوا سازی کا کام شروع ہو گیا، ہاشمی ایک تو ظاہر ہے تمام عرب قبائل میں نسبت محمدی ﷺ کی وجہ سے اعلیٰ مقام رکھتے تھے، پھر یہ کیوں قبول ہوتا آقاؤں کو کہ ایک خلافت کا خاتمہ ہوا تو دوسری قائم ہو جائے، وہ تو عرب قبائل سرداروں میں زمین تقسیم کرنے ہی اس لئے آئے کوئی مشترکہ نظام نہ قائم ہو جائے، پھر پہلی جنگ عظیم کے لئے میدان تیار کیا گیا 1916 سے 1918 تک عرب بغاوت کا ڈول ڈالا گیا، اور 1917 میں بالفور علانیہ بھی آ گیا، اس دستاویز کو گوگل کر کے دیکھ لیں، میرے تجزیے کو رد کیا جاسکتا ہے، اعلان بالفور میں کون کس کے ساتھ ہمدردی کا دم بھر رہا ہے۔ منقسم عرب قبائل کو مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں میں امیری اور بادشاہت دے کر عرب بغاوت کو ٹھنڈا کر دیا گیا، گویا آزادی مل گئی، آزادی وہاں تک جہاں آقاؤں یعنی پرانے اتحادیوں کو اعتراض نہ ہو۔

سر آرتھر بالفور برطانیہ کے 1917 میں جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیر خارجہ بنے، اور انھوں نے اس حوالے سے جو اعلان جاری کیا وہ اعلان بالفور کہلاتا ہے، جس کی تفصیلات درجہ ذیل ہیں۔

کاتب آرتھر بالفور اور مخاطب روتھ چائلڈ

عرب بغاوت کے الفاظ عمومی طور پر لکھے جاتے، لیکن جب فلسطین کے بات ہوتی ہے تو برطانوی مورخ اس کو اپنی فتح کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ عرب بھی ساتھ تھے، یہ کارنامہ برطانیہ نے اکیلے انجام نہیں دیا، لیکن جس طرح سے انھوں نے شریف حسین اینڈ کمپنی کو کھڈے لائن لگایا، ان کی طرف سے کیا جوابی دعویٰ آئے گا، ظاہر ہے خاموشی نیم رضامندی تصور کی جائے۔

آج 29 نومبر کو جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں، آج ہی کے دن سن 1947 ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کرنے کی قرار داد منظور کی تھی، اس قرار داد کی رو سے، فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جانا تھا، گو کے اس قبل وہ قرار داد بھی مجھے قبول نہ ہوتی، لیکن تھوڑا بہت جو مل رہا تھا فلسطین میں فلسطینیوں کو آج تو حالات اس کے مقابلے میں بہت شکستہ ہیں، مہاجر کیمپوں کی زندگی کیا ہوتی ہوگی، یقیناً چاہے کتنا ہی مہمان نواز میزبان کیوں نا ہو، گھر سے بے گھر ہونا کوئی حل تو نہیں، شریف حسین ابن علی تو اللہ کو پیارے ہو گئے، لیکن جب جب فلسطینیوں پر ظلم ہو گا، کوئی عرب فلسطینی کے بچہ یتیم ہو گا، جب جب شریف حسین ابن علی کو کو ضرور یاد کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments