جمہوری سیاست اور پیپلز پارٹی!


دنیا میں جمہوری سیاست کے صرف تین ہی طریق رائج ہیں۔ ( 1 ) بیانیہ تشکیل دے کر عوام میں جگہ بنائی جائے، ( 2 ) مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کر کے نظام کی درستگی کی جائے یا اپنی اہمیت منوائی جائے، ( 3 ) مفاہمت کرتے ہوئے جاری نظام کا حصہ بنا جائے۔ ماہرین سیاست کی یہ رائے اس لئے یاد آئی کہ آج پیپلز پارٹی اپنا 55 واں یوم تاسیس منا رہی ہے۔ 30 نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں روٹی کپڑا اور مکان جیسے بیانیے کے ساتھ وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی نے جلد ہی اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، طاقت کا سرچشمہ عوام اور سوشلزم ہماری معیشت جیسے نعروں کی مدد سے عوام کی توجہ حاصل کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت نے ان نعروں کو پر زور بیانیے کی صورت عام آدمی تک پہنچا دیا۔ جس کی جھلک اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

بے نظیر تعلیم کی تکمیل کے بعد 1977 میں وطن واپس پہنچیں تو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ان کے والد کی حکومت کی بساط الٹ گئی اور ملک تیسرے مارشل لاء کی لپیٹ میں آ گیا۔

ممکن ہے بے نظیر نے عملی سیاست کا آغاز پھر کبھی کرنا ہو لیکن حالات انہیں فوری سیاست کی طرف لے گئے۔ کبھی باپ سے جیل میں ملاقات تو کبھی ملکی سیاستدانوں سے بات چیت، ایم آرڈی کے لئے دیگر جماعتوں کو راضی کرنا پھر اس کی قیادت اور احتجاجی تحریک کے دوران سختیاں، اس سب کے دوران ضیا اور اس کے حامیوں کی طرف سے بھارتی، روسی ایجنٹ ہونے کے طعنے اور غداری کے سرٹیفکیٹ۔ گویا بے نظیر کی سیاست مکمل مزاحمتی روپ دھار کر اپنے عروج کو پہنچی۔

2007 میں خودساختہ جلاوطنی کے دوران مشرف سے ابوظہبی میں ملاقات سے بینظیر کا دوسرا طرز سیاست سامنے آیا، جسے عرف عام میں این آر او کا نام دیا گیا۔ سیاست کے طالبعلم اسے مفاہمتی سیاست بھی کہہ سکتے ہیں۔

اسی مفاہمتی سیاست کے ساتھ آصف زرداری سیاسی میدان میں اترے، بلاول بھی اسی طرز کو لے کر آگے چل رہے۔ اس طرز سیاست سے پیپلز پارٹی کیا فائدہ حاصل کر سکتی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا، لیکن یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے 55 سالوں میں بیانیے، مزاحمت اور مفاہمت کے تینوں اصول اپنائے اور ان سے فوائد بھی حاصل کیے ۔

پارٹی پالیٹکس پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ مفاہمتی سیاست دراصل کسی بھی جماعت کی سیاسی بقا کی آخری کوشش ہوتی ہے اور یہ کسی بھی جماعت کے زوال کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ جب کوئی جماعت کسی نئی پالیسی کی بنا پر کوئی نیا بیانیہ دینے میں ناکام ہو جائے، مصلحتوں کا شکار ہو کر مزاحمت ترک کردے تو اسے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مفاہمت کی طرف ہی جانا پڑتا ہے اور پیپلز پارٹی اسی طرف جا رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments