بحری جہاز کے رڈر بلیڈ پر بیٹھ کر سپین پہنچنے والے تارکین وطن جن کی تصویر دنیا بھر میں وائرل ہوئی


ان کی تصویر دنیا بھر میں وائرل ہوئی ہے اور جس نے بھی دیکھا وہ حیران رہ گیا اور اس کی وجہ اُن کا مشکل، پُرخطر اور غیرقانونی کام تھا۔  

گران کیناری کے ساحل پر ان کو بچانے کے دو دن بعد اب وہ بظاہر اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں یعنی فی الحال انھیں سپین میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ’آلیتھن ٹو‘ نامی آئل ٹینکر، جس پر سوار ہو کر یہ تارکین وطن سپین پہنچے تھے، کو ان تینوں افراد کے بغیر ہی اپنا سفر جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔

سپین کی حکومت نے ان تارکین وطن کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ تینوں نائجیرین شہری ہیں اور انھوں نے سپین پہنچتے ہی پناہ کی درخواست دی ہے۔ اس میں ایک شخص جس کی حالت زیادہ خراب تھی وہ ہسپتال میں زیر علاج ہے۔‘

حکومتی اہلکاروں نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ ’اب یہ بحری جہاز ان کے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔‘

اس کا مطلب ہے کہ ہسپانوی حکومت نے آخر کار بحری جہاز کو بندرگاہ چھوڑنے اور ان تینوں تارکین وطن کو گران کیناری کے جزیرے پر ہی رہنے کی اجازت دے دی ہے۔  

غیر سرکاری تنظیم ’کیمینینڈو فرونٹیراس‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’اس طرح کے خطرناک سفر سے گزرنے کی حقیقت کو تینوں افراد کی ذاتی زندگی کے حالات کا تجزیہ کر کے سمجھا جانا چاہیے۔ اس لیے انھیں سپین میں رہنے کی اجازت دی جائے۔‘

اسی طرح این جی او نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ وہ ان تینوں افراد کو تارکین وطن کے سینٹر میں رکھے تاکہ ’وہ پرخطر اور جان لیوا سفر کے واقعات کی نوعیت کے پیش نظر ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت یاب ہونے کے لیے ضروری مدد حاصل کر سکیں۔‘

ہم اس سفر کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

یہ تینوں افراد بحری جہاز کے رڈر بلیڈ تک کیسے پہنچے اس بارے میں علم نہیں مگر جس بات کا علم ہے وہ یہ ہے کہ یہ تینوں افراد نائجیریا کے ساحلی شہر لاؤس سے مالٹا کے بحری جہاز آلتھینی ٹو پر 17 نومبر کو سفر شروع کرنے سے قبل سوار ہوئے تھے۔  

یہ بحری جہاز بنا کسی پڑاؤ کے 11 روز تک مسلسل سفر کر کے سپین کے جزیرہ گران کیناری پہنچا تھا۔

پیر 28 نومبر کو سلوامنٹوں میری ٹائم نے ان کو جہاز کے نچلے حصے پر دیکھے جانے کے بعد لاس پالمس پہنچ کر بچایا تھا۔  

بحری جہاز کے جس حصے پر یہ تینوں افراد دیکھے گئے تھے اس جگہ کو رڈر بلیڈ کہتے ہیں اور یہ جہاز کے ڈھانچے سے باہر نچلی سطح پر ہوتا ہے اور یہ کھلی جگہ ہوتی ہے۔ یہ تینوں افراد اس کھلی اور خطرناک جگہ پر موجود تھے اور انھیں سمندر کی طاقتور لہروں کا سامنا تھا۔

ان تینوں افراد کی جہاز کے رڈر بلیڈ پر بیٹھے ہوئے کی تصویر میری ٹائم ریسکیو کے اہلکار اورلینڈو راموس نے کھینچی تھی جس نے انھیں وہاں سے بچایا تھا۔ میری ٹائم ریسکیو میں بچائے جانے والے افراد کی تصویر لینا عام بات ہے۔

اورلینڈو راموس نے بدھ کو جاری ایک سرکاری بیان میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ معمول کی بات ہے۔ اصل کام، جو اہم تھا وہ ان تینوں جانوں کو بچانا تھا، ان لوگوں کی محفوظ مقام پر منتقلی کرنا تھا جو کمزوری کی حالت میں ہائپوتھرمیا کے ساتھ آتے ہیں۔ ریسکیو کے دوران ایک ایسی تدبیر کرنا جس سے ان کی جانوں کو خطرہ نہ ہو۔‘

یہ تینوں افراد کس حالت میں پہنچے ہیں؟

سلوامینٹو میری ٹائم فورس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نائجیریا سے تعلق رکھنے والے یہ تینوں مرد تارکین وطن کمزوری اور ہایپوتھرمیا کا شکار تھے۔ ان میں سے دو کو ابتدائی طبی امداد کے لیے ہسپتال منقتل کیا گیا جبکہ ایک شخص کی حالت نازک تھی جسے انسولر ہسپتال میں داخل کیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت ان کی حالت کیسی ہے اس بارے میں سرکاری سکیورٹی فورسز اور ادارے ہی بتا سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سلوامنٹو میری ٹائم فورس کا کام لوگوں کو بچانا اور ساحل تک پہنچانا ہے۔ ساحل پر پہنچنے کے بعد بچائے گئے افراد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ملک کی ہیلتھ سروسز اور سرکاری سکیورٹی فورسز کی ہوتی ہے۔‘

حکام کے مطابق ’ان میں سے دو افراد کو جلد ہی طبی امداد دے کر جہاز پر دوبارہ منتقل کر دیا گیا تھا البتہ بعدازاں ان کی جانب سے پناہ کی درخواست کے بعد انھیں جہاز سے اتار لیا گیا۔ جبکہ تیسرا شخص ہسپتال میں ہی زیر علاج رہا اور اب اس کی زندگی خطرے سے باہر ہے۔‘

ای ایف ای نیوز ایجنسی کے مطابق ’لاس پالمس میں میری ٹائم رسکیو کوارڈینشن سینٹر کی سربراہ سوفیا ہرنینڈز کا کہنا تھا کہ جہاز کے جس حصے پر یہ تینوں افراد موجود تھے یہاں کسی شخص کے لیے بیٹھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کھلے سمندر میں سخت موسمی حالات اور پانی کی کمی کے باعث موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہائپوتھرمیا اور سمندر کی طاقتور لہریں بھی انھیں وہاں سے بہا کر لے جا سکتی تھیں۔    

یہ بھی پڑھیے

مونا کینال: وہ خطرناک بحری راستہ جہاں ہر سال درجنوں تارکین وطن امریکہ پہنچنے کی کوشش میں مارے جاتے ہیں

لیبیا کے پناہ گزینوں کی وہ کشتی جو غائب ہو گئی

نقل مکانی کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک راستے کون سے ہیں؟

اب ان افراد کے ساتھ کیا ہو گا؟

لاس پالمس سے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ان تینوں نائجیرین افراد نے سپین میں پناہ کی درخواست دی ہے۔

سپین کے قانون کے مطابق جیسے ہی اپنے ملک سے بھاگ کر آنے والے یہ افراد سپین کی حدود میں داخلے اور یہاں پناہ کی درخواست دیتے ہیں تو انھیں مفت قانونی مدد اور یہاں پناہ لینے کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔

کتنی مرتبہ غیر قانونی تارکین وطن بحری جہاز کے رڈر بلیڈ پر چھپ کر پہنچے ہیں؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے میری ٹائم ایجنسی کا کہنا تھا کہ ’عموماً یہاں آنے والے تارکین وطن اس طرح کے خطرناک طریقے سے نہیں آتے ہیں۔‘

تاہم اس طرح کے افراد کو ریسکیو کرنے والے مجاز ادارے کے مطابق اب تک رواں برس میں اس طرح کے پانچ واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

جنوری 2018 میں میری ٹائم ریسکیو ایجنسی نے ایسے چار غیر قانون تارکین وطن کو بچایا تھا جو گرین سکائی نامی بحری جہاز کے رڈر بلیڈ میں چھپ کر سپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اکتوبر 2020 میں چار غیر قانونی تارکین وطن کو لاؤس سے لاس پالمس آنے والے ناروے کے آئل ٹینکر کے وہیل ہاؤس سے برآمد کیا گیا تھا۔

اسی ماہ ریسکیو ایجنسی نے سات افراد کو انڈرومیڈا نامی جہاز کے نچلے حصے سے بچایا تھا۔

 جبکہ 2020 میں نومبر کے مہینے میں اسی جہاز کے رڈر بلیڈ سے ایک اور غیر قانونی تارکین وطن کو بچایا گیا جبکہ اسی ماہ اوشن پرنسز نامی جہاز میں چھپے چار مزید تارکین وطن کو پکڑا گیا تھا۔

غیر سرکاری تنظیم کیمینینڈو فرونٹیراس اس بات پر زور دیتی ہے کہ ’کیناری آئی لینڈز روٹ‘ کے نام سے جانا جانے والے بحری راستہ پر سب سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن جہازوں میں چھپ کر پرخطر حالات میں سفر کرتے ہیں۔

اس غیر سرکاری تنظیم کے مطابق سنہ 2022 کے پہلے چھ ماہ کے دوران اس بحری راستے میں 800 افراد کی موت ہوئی تھی۔

جبکہ اقوام متحدہ کی تارکین وطن کی عالمی تنظیم کے مطابق سنہ 2021 میں اس بحری راستے میں 1532 غیر قانونی تارکین وطن کی اموات ہوئی تھیں۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments