تیزی سے ترقی کرنے والا ملک قطر


فٹ بال کے عالمی کپ کی وجہ سے قطر اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ میں نے 2019 میں قطر کی سیاحت کی اور اپنے مشاہدات کو قلم بند کیا تھا۔ میرے ان سفری مشاہدات کا پہلا حصہ نذر قارئین ہے۔ اس کا آغاز دوحہ ائر پورٹ سے ہوتا۔

دوحہ آراستہ پیراستہ، جدید اور صحیح معنوں میں بین الاقوامی ائرپورٹ ہے۔ اس میں بین الاقوامی فضائی اڈوں والی تمام خصوصیات اور خواص موجود ہیں۔ قطر ایئرلائن کی معیاری سروس کی وجہ سے بھی یہ ائرپورٹ دنیا بھر کے مسافروں کی گزرگاہ ہے۔

قطر میں بیشتر ممالک کے لیے ویزے کی شرط نہیں ہے بلکہ ائرپورٹ پر داخلہ کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ آسٹریلیا بھی ان ممالک میں شامل ہے۔ لہٰذا میں سرعت اور آسانی سے اس مرحلے سے گزر گیا۔ اس وقت مجھے خوشگوار احساس ہوا جب اولاً قطری عملے کو مسافروں کے ساتھ انگریزی میں بات کرتے دیکھا۔ دوئم جب امیگریشن افسر نے مہر لگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کرتے ہوئے ’ویلکم ٹو قطر‘ کہا۔ اس کے چہرے پر دوستانہ مسکراہٹ بھی باعث مسرت تھی۔ ماضی میں چند عرب ملکوں سے یہ یکسر مختلف تجربہ تھا۔ لگتا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے سارے نہیں تو کچھ ملکوں میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔

قطر میں غیر ملکیوں کی تعداد قطریوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک کی کل آبادی ستائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس میں غیر ملکی چوبیس لاکھ اور قطری صرف تین لاکھ پندرہ ہزار ہیں۔ ان غیر ملکیوں میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے چالیس فیصد ہیں جس میں سر فہرست بھارتی ہیں جو سات لاکھ کے قریب قطر میں مقیم ہیں۔ گویا قطر میں قطریوں سے دوگنا بھارتی بستے ہیں۔ بھارتیوں کے بعد دوسرا نمبر پاکستانیوں کا نہیں بلکہ حیران انکشاف کے مطابق نیپالیوں کا ہے۔ ان کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہے۔

تیسرے نمبر پر بنگلہ دیشی ہیں جن کی تعداد دو لاکھ نوے ہزار ہے۔ فلپائنی دو لاکھ ساٹھ ہزار، سری لنکن ایک لاکھ پینتالیس ہزار، مصری دو لاکھ اور یورپین و دیگر اقوام کے افراد موجود ہیں۔ جبکہ پاکستانی صرف ایک لاکھ پچیس ہزار ہیں۔ یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ برادر اسلامی ملک جسے دنیا کا امیر ترین ملک سمجھا جاتا ہے وہاں پاکستانیوں سے زیادہ بھارتی، نیپالی اور سری لنکن موجود ہیں اور بھارتیوں کی تعداد پاکستانیوں سے چھ گنا زیادہ ہے۔

مگر ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ قطری پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شاہی خاندان پاکستانیوں پر بہت اعتماد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے وزرا، مشیر اور اعلیٰ سرکاری افسران کے دست راست پاکستانی ہیں۔ پاکستانی اہم عہدوں پر فائض ہیں۔ کامیاب کاروباری ہیں اور کئی کمپنیوں کے مالک ہیں۔ قطری اہم معاملات میں پاکستانیوں سے مشورے لیتے ہیں۔ گویا قطر میں پاکستانیوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود ان کا اثر و رسوخ اور عزت و احترام زیادہ ہے۔

قطر جزیرہ عرب نما کے شمال مشرقی ساحل پر واقع چھوٹا سا ملک ہے۔ مگر خدائے بزرگ و برتر نے اسے تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ ان قدرتی وسائل کی وجہ سے قطر دنیا کے اہم ممالک میں شامل ہے۔ اس کی حیثیت درمیانے درجے کی طاقت کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اقتصادی ترقی کے ساتھ انسانی ترقی اور الجزیرہ نیٹ ورک کی وجہ سے قطر نے اپنی حیثیت و طاقت منوائی ہے۔ یہ چھوٹا سا ملک دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے، جب کہ تیل کے چودھویں بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ تیل اور گیس کی مد میں قطری حکومت کثیر سرمایہ جمع کرتی ہے۔ صرف 2018ء میں اس مد میں اس نے ستر ارب ڈالر کمائے۔ اندازہ لگائیے کہ اس کی مختصر سی آبادی کے تناسب سے یہ کتنی بڑی آمدنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قطری کا شمار دنیا کے امیر لوگوں میں ہوتا ہے۔

جیسے محاورہ ہے کہ حسن ہو تو نزاکت آہی جاتی ہے اسی طرح دولت وافر ہو تو مزاج بدل ہی جاتا ہے۔ لہٰذا کوئی قطری شہری عوامی ٹرانسپورٹ حتیٰ کہ ٹیکسی استعمال کرنا کسر شان سمجھتا ہے۔ میں نے دوحہ میں اتنی مہنگی ترین گاڑیاں دیکھیں جو دنیا میں نظر نہیں آتیں۔ اس کے برعکس دوحہ میں ٹرین یا بس نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا رواج ہی نہیں۔ قطریوں کے بارے میں ایک واقعہ میرے سڈنی کے دوست پروفیسر ڈاکٹر محمود نگریال صاحب نے سنایا۔

ڈاکٹر محمود ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا۔ ”میرے طالب علموں میں ایک قطری نوجوان بھی ہے جو خاصا ذہین ہے۔ ایک دن اس نے اپنی ریسرچ کے حوالے سے میرے ساتھ میٹنگ طے کر رکھی تھی۔ میٹنگ سے ایک گھنٹہ پہلے اس کا فون آ گیا اور کہنے لگا۔“ پروفیسر محمود ( آسٹریلیا میں سر کہنے کا رواج نہیں ہے ) میں آج نہیں آ سکتا۔ میٹنگ کسی اور دن رکھ لیں ”۔

میں نے پوچھا ”کیوں، کیا ہوا؟“

”دراصل میری کار کا حادثہ ہو گیا ہے۔ میں نے نئی کار کے لیے آرڈر دے دیا ہے۔ ایک دو دنوں میں آ جائے گی۔“
”آپ ٹرین یا ٹیکسی پر آ جاتے؟“ پروفیسر صاحب نے کہا۔

قطری بولا۔ ”پروفیسر میں طالب علم ضرور ہوں لیکن اس کے ساتھ قطری بھی ہوں میں ٹیکسی میں کیسے سفر کر سکتا ہوں؟“

دو تین دن بعد نئی مرسڈیز ملی تو قطری طالب علم یونیورسٹی آیا۔ جبکہ آسٹریلیا میں طلبہ کی اکثریت بس یا ٹرین میں یونیورسٹی آتی ہے۔ اس میں امیر گھرانوں کے بچے بھی ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ قطری نہیں ہوتے۔

قطر کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سوا تین لاکھ حقیقی باشندوں میں اصلی اور نسلی قطری صرف پچاس ہزار ہیں۔ یہ وہ قطری ہیں جن کے آبا و اجداد نسلوں سے اس سر زمین پر آباد ہیں۔ دیگر عرب ملکوں سے آئے ہیں۔ قطر کا شاہی خاندان آل ثانی بھی اصلی قطری خاندانوں میں شامل ہے۔ اس خاندان کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ممکن ہے آسٹریلین طالب علم بھی اس خاندان کا حصہ ہو۔

1868ء میں محمد بن ثانی نے انگریزوں سے معاہدہ کیا تھا۔ اس وقت سے ثانی خاندان قطر پر حکومت کرتا آ رہا ہے جبکہ بالواسطہ انگریزوں کی ہی حکومت تھی۔ 1971ء میں برطانیہ نے اسے آزاد کر دیا۔ اس کے بعد قطر نے اس سرعت سے ترقی کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ جہاں تک قطر کے جغرافیہ کا تعلق ہے فضا سے دیکھا جائے تو جزیرہ نما قطر آسمان سے ٹپکا ہوا آنسو دکھائی دیتا ہے۔ اس کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ملتی ہے۔ باقی اطراف میں خلیج فارس ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ملنے والی سرحد پر بھی سعودی حکومت ایک نہر بنانے کا سوچ رہی ہے۔ اگر سلوی ٰنامی مجوزہ نہر بن جاتی ہے تو نہ جانے من و سلویٰ اترے گا یا نہیں، قطر ایک مکمل جزیرے کی شکل اختیار کر لے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments