آسٹریلیا کے گمشدہ وزیراعظم اور پاکستان میں جبری لاپتہ افراد


17 دسمبر 1967 کی دوپہر آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریہ کے صدر مقام میلبورن کے مضافات میں واقع ساحلی مقام ”شیو یوٹ بیچ“ پر ایک شخص اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سمندر کے پانی میں تیرنے کے غرض سے داخل ہوا۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ براعظم آسٹریلیا میں موسموں کی تقسیم باقی دنیا سے بالکل مختلف اور الٹ ہے۔ وہاں جون جولائی میں سردی ہوتی ہے اور دسمبر، جنوری میں گرمی کا موسم، وہ شخص تیرتے ہوئے اپنے باقی ساتھیوں سے ذرا آگے نکل گیا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔

وہ شخص آسٹریلیا کا 59 سالہ وزیراعظم ہیرالڈ ہولٹ تھا۔ آج تک وزیراعظم ہیرالڈ ہولٹ کا کوئی سراغ نہ مل سکا اور نہ ہی ان کے غائب ہونے کی کوئی اور وجہ پتہ چل سکی۔ ظاہر ہے تھوڑی دیر میں پورے علاقے اور پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ بڑے پیمانے پر ہیرالڈ ہولٹ کو تلاش کرنے کا آپریشن شروع کر دیا گیا۔ مختلف قسم کی افواہیں اور سازشی تھیوریاں بھی جنم لینے لگیں لیکن ان تمام کارروائیوں کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

ایک عجیب بات یہ تھی کہ شیو یوٹ بیچ کے نام کے ساتھ بھی ایک المناک حقیقی واقعہ جڑا ہوا تھا ساحل کا یہ نام ایک بحری جہاز ایس شیو یوٹ کے نام پر رکھا گیا تھا جو اس مقام پر 20 اکتوبر 1887 کو غرقاب ہو گیا تھا اس حادثے میں 35 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ آخر کار ہیرالڈ ہولٹ کے غائب ہونے کے پانچ دن بعد 22 دسمبر 1967 کو اس کی یاد میں میلبورن شہر کے سینٹ پال کیتھڈرل میں اختتامی دعائیہ تقریب منعقد کردی گئی۔ اس تقریب میں اس وقت کے امریکی صدر لنڈن بی جانسن، برطانیہ کے پرنس چارلس اور وزیراعظم ہیرالڈو لسن، فلپائن کے صدر فرڈیننڈ مارکوس اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اوتھانٹ بھی شامل تھے۔

آسٹریلیا کے عوام نے اس سانحے کو ایک بہت بڑی قومی بدقسمتی جانا اور اس کے بعد آسٹریلیا کا سیاسی ڈھانچہ ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو گیا۔ میرا دیس پاکستان تو ایک عرصے سے سیاسی بنیادوں پر جبری لاپتہ افراد کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ 6 فروری 1976 کو دو نوجوان بلوچستان کے ایک سرکردہ سیاسی شخصیت بلخ شیر مزاری کے گھر سے اپنی کار میں سوار ہو کر نکلے اور غائب ہو گئے۔ اس میں سے ایک نوجوان اسد مینگل بلوچستان کے سابق وزیراعلی سردار عطا االلہ مینگل کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور دوسرا نوجوان اس کا دوست احمد شاہ کرد تھا۔

اسد مینگل اس وقت 19 سال کا کڑیل جوان تھا۔ اسد کی کار بلخ شیر مزاری کے گھر کے قریب سے ہی تباہ شدہ حالت میں مل گئی۔ کار کی نشستوں پر خون کے دھبے بھی پائے گئے۔ لیکن دونوں نوجوانوں کا آج تک سراغ نہ مل سکا۔ اسد مینگل کو بلوچستان کا پہلا جبری طور پر گمشدہ نوجوان سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی بلوچستان کے تقریباً 10 ہزار افراد جبری طور پر لاپتہ ہیں۔ اسی طرح کراچی کی متحدہ قومی موومنٹ بھی دعوی کرتی ہے کہ اس کے بھی سینکڑوں کارکن آج تک لاپتہ ہیں۔

آج پاکستان کے چہار سو اس بات کا غلغلہ بلند ہے کہ پاکستانی فوج نے غیرسیاسی کردار اپنا لیا ہے۔ اللہ تعالی فوج کے کارپردازوں کو اس اصول پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس وقت فوج سے جڑا ہوا سب سے بڑا مسئلہ مسنگ پرسنز کا ہے۔ اس معاملے میں فوج کا موقف ہے کہ جب وہ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قانون کے حوالے کرتی ہے تو دہشتگردوں کے وکیل کمزور قوانین کا سہارا لیتے ہوئے اپنے دلائل اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے دہشت گردوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا وہ سارا زور جو دہشتگردوں کو غیر قانونی طور پر غائب کرنے پر لگا دیتی ہے اس سے متعلق قوانین میں مثبت اور مضبوط ترامیم کرنے میں لگائے۔

ایک ایسی با اختیار کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جس میں عدلیہ، مقننہ اور فوج کے لیگل برانچ کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہوں وہ سب مل کر مخصوص مدت میں قوانین میں ایسی تبدیلیاں روبہ عمل لائیں کہ اصل دہشت گرد کسی بھی طرح قانون کے شکنجے سے بچ نہ پائیں۔ اس طرح فوج کی عزت اور وقار بھی بحال ہو جائے گا اور پاکستان کے عوام خاص طور پر پاکستان کے سینکڑوں سیاسی کارکنان سکھ کا سانس لے سکیں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments