ووٹ ڈالتے وقت چند اہم نکات ذہن میں رکھیں


ضلع لسبیلہ میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں نئے پرانے آزمائے ہوئے چھوٹے بڑے درمیانی سارے امیدوار میدان میں دکھائی دے رہے ہیں۔ بیشک سیاسی نظام کی تبدیلی میں بلدیاتی انتخابات کا سب سے اہم رول ہوتا ہے۔ اور پہلی بار ضلع لسبیلہ بلدیاتی انتخابات میں امیدواروں اور عوام کا حد درجہ رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ برساتی مینڈک سیاسی نابالغ نئے پرانے آزمانے کے قابل اور آزمائے ہوئے سب آمنے سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ 11 دسمبر فیصلے کا دن ہو گا مگر ہمیشہ کی طرح ایک ایسا رجحان جس کے ذریعے عوام کو گمراہی کا سامنا رہا اور نظام کبھی نہیں بدلا جس پر بات کرنا ضروری سمجھا بس اسی ایک سبب کے باعث قلم نے مجبور کیا کہ مجھے ضبط میں لاکر خیال کا اظہار کر۔

کچھ لوگوں کی عجیب وہی بوسیدہ روایت (ذات پات لسانی تفریق کے تحت الیکشن مہم) جس نے ہمیشہ ذہنی غلامی احمق پن کو فروغ دے کر ایک پالیسی کے تحت ناکارہ لوگوں کو عروج بخشا اور یہ زنگ یا رنگ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لیے ہمیشہ خوشی کا باعث رہا اور جیت کا بھی۔ جبکہ پاکستان میں اس طرز کی سیاست کو اہمیت ملنا ہی پاکستان میں سیاسی ناکامی کا حصہ ہے اور جس کی وجہ سے ہمیشہ جمہوری عمل کو موت آئی بلکہ بار بار آئی۔

عوام کو سمجھنا ہو گا کہ سیاست میں فرد کی کارکردگی پر منحصر ہوتا ہے ووٹ لینا نہ کہ اس کی ذات پات یا لسانی نسلی امتیاز کو دیکھ کر خیر اس میں کوئی شک نہیں اچھے لوگ بھی نواب سردار وڈیرہ پیر قاضی حاجی یا اکثریتی خاندان سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں زیادہ دل پر لینے کی ضرورت نہیں مگر ووٹ کے لیے بالا ذات پات کے معیار پر اترنا ضروری نہیں ہوتا اور یہی سوچ سیاست میں عوامی شعور کا تعین کرتی ہے جو ذات پات کی تفریق کو اہمیت نہیں دیتی۔

ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے ضمنی انتخابات میں نوابیت سرداری وڈیرہ شاہی کے بعد لوکل باڈی انتخابات یعنی بلدیاتی انتخابات میں مسلک مذہب لسانی نسلی تفریق کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کا رجحان رہا ہے میں ان سارے حربوں کو جمہوری سیاست آزادی رائے کے خلاف اقدام سمجھتا ہوں آپ سوچیں اس طرز کا ابلاغ کرنے والا عوام کی رہنمائی کیسے کر سکتا ہے جو اپنی ذات سے ہی آ گئے نہیں سوچتا وگرنہ عوام ہر مختلف رنگ نسل ذات پات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ بیشک فرد کا فرد سے اختلاف ہوتا ہے اور وہ یہی تک ہو تو بہتر ہے عربی عجمی یا لسانی یا نسلی اختلاف کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں مگر اس عمل کو سمجھنے کے لیے شعور کا ہونا لازمی ہے۔ جس پر کام کرنا ہو گا سمجھنا ہو گا۔

اپنے لیے لوکل سطح پر یا اپنے حلقہ محلہ کی حد تک یا پھر صوبائی یا قومی نشست کے لیے عوام کو اپنے لیے بالا تمام تفریق کو پس پشت رکھنا ہو گا۔ پھر لوگوں کو ترقی اور ترجیحی اور اپنی طاقت کا اندازہ ہو گا۔ جو کہ ضروری عمل ہے اور اسی سے علاقے کو صحیح نمائندگی میسر ہوگی۔ جب تک ووٹ کا اندراج کارکردگی امیدوار کے رویے اس کی کمیونیٹی میں موجودگی کو پرکھنے پر نہیں کیا جائے گا تب تک بوسیدہ نظام میں ہر شخص پستا رہے گا اور نظام کی تبدیلی نہ ممکن ہی رہے گی۔ برائے کرم اپنے لیے امیدوار کا انتخاب کرنے کے لئے انسان کیسا ہے یہ دیکھنا ضروری ہے خاندان قبیلہ ذات پات دیکھنا دیکھنا ضروری نہیں ہوتا جب کہ ذات پات کی درجہ بندی صرف شناخت کی حد تک ہے۔

برائے کرم اپنے ووٹ کا صحیح استعمال ایسے عوامی نمائندے کے لیے کریں جو آپ کے کسی کام آ سکے دکھ سکھ میں آپ کی درمیان موجود رہے ذاتی مفادات یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی فرد کا انتخاب کرنا احمق پن ہے اور یہ سیاسی لاشعوری کی انتہاء ہے۔ ہمارے ہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے لوکل باڈی الیکشن یعنی بلدیاتی انتخابات میں کپڑوں گاڑیوں زمینوں یا متعلقہ امیدوار کی فلاں شخص کے ساتھ کتنی تصویریں ہیں یہ دیکھ کر ووٹ اندراج کیا گیا ہے اور متعلقہ امیدوار پانچ سال تک ایسے غائب ہوجاتا ہے جیسے کند ذہن شخص کی گھڑی کا غائب ہوجانا اور سامنے ہو کر نہ ملنا۔

یعنی کئی غیر ضروری وجوہات سے متاثر ہو کر ووٹ دینے سے زیادہ بہتر ہے شخص کیسا ہے آپ کے علاقے میں اس کا کیا رول ہے یہ عمل دیکھ کر دیا جائے بلکہ نئے لوگوں کو موقع دیا جائے اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنے لیے امیدوار کا انتخاب کیا جائے ایک وجہ یہ بھی ہے کئی بار شخص کی تبدیلی بھی نظام کی تبدیلی میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔

ووٹ آپ کا آئینی حق ہے اظہار رائے کا حق آپ کو ریاست پاکستان دیتا ہے اور ریاست میں انتخاب کے حوالے سے کئی بھی ایسی قانون سازی موجود نہیں کہ ذات پات دیکھ کر ووٹ دیا جائے یا نواب سردار وڈیرہ دیکھ کر ووٹ دیا جائے ایسا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ میرے نزدیک انتخابات سے پہلے یا بعد میں امیدوار کی اپنی بساط کے مطابق اپنے محلے یا علاقے کے لوگوں کے ساتھ موجودگی ان کے ہر کام میں ان کے ساتھ ہم قدم رہنے والا ہی ووٹ کا صحیح حقدار ہے۔ امیدوار کا منشور اہمیت رکھتا ہے مگر ہمارے ہاں اکثر امیدوار کو منشور سے زیادہ یہ یاد ہوتا ہے کہ میں کس کا بندہ ہوں یا امیدوار کے لیے مہم چلانے والے منشور سے زیادہ امیدوار کی ذات پات کے عوض عوام سے ووٹ لینے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔

ترقی یافتہ معاشرے میں ذات پات دیکھ کر علاقے کی فلاح کے لیے کسی امیدوار کا انتخاب نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے رویے اس کی پروگریس کی بنیاد پر یا آزمائے ہوئے نہ آزمانا کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ برائے کرم لسبیلہ بھر میں بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں میری باتوں پر غور کریں یہ جانتے ہوئے کہ میں بھی عام فرد ہوں امتیازی سلوک یا ذات پات کی تفریق کے خلاف شخص ہوں مگر اپنے محلے کے لیے اپنے لیے صحیح امیدوار کا انتخاب کرنا لازمی ہے ذات پات کو بالائے طاق رکھ کر یوں تو یہ میرا مختصر خیال ہے اگر اس پر زرا سا بھی عملدرآمد ہوا تو میں اپنے خیال اور خیال کو قلم کی ضبط میں لاکر تحریر شدہ مواد کو فضول نہیں سمجھوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments