احمد حسن – خاکہ


زندگی میں کچھ لوگ خوشبو کی مانند ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتی لیکن فضاء میں اپنی موجودگی اور احساس دلاتی رہتی ہے۔ احمد حسن صاحب المعروف حسن بھائی المعروف حسن جم والے کی شخصیت بھی ایسی تھی۔ ہمارا ان سے پہلا واسطہ ساتویں یا آٹھویں جماعت میں ہوا جب گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم نے کراٹے کی کلاسز لینے کا فیصلہ کیا۔ ہم اس وقت بالکل کمزور اور مہین تھے اور کانگڑی پہلوان کہلاتے تھے۔ اسکول میں سارے لوگ ہمارا مذاق اڑاتے تھے اس لیے ہم نے سوچا کہ کراٹے کی کلاسز لے کر ہم اپنے جسم کو مضبوط اور توانا بنا لیں۔

اسی مقصد کو لیے ہم حسن جم اور کراٹے سینٹر پہنچ گئے۔ جہاں حسن بھائی کی صورت میں ایک ہٹا کٹا انسان بیٹھا تھا۔ چھ فٹ دو انچ قد، چوڑا سینہ، بھری بھری ٹانگیں، مضبوط ڈیل ڈول اور بڑے بڑے ہاتھ، رنگ سفید اور گنجا سر، ایسا لگتا تھا کہ ابھی دبوچ کر مار ہی نہ دیں۔ لیکن لبوں پر دھیمی دھیمی مسکراہٹ لیے حسن بھائی نے ہم کو خوش آمدید کہا اور ہمارا ان کے ساتھ ایک تعلق بن گیا اور ہم نے باقی کارروائی کے بعد کراٹے کی کلاسز لینا شروع کر دیں۔

کراٹے کی کلاسز میں نیئر بھائی اور بروسلی سینئر (اصل نام یاد نہیں ) ہوتے تھے جو حسن بھائی کو کلاس چلانے میں مدد دیا کرتے تھے۔ کراٹے کی کلاس بڑے زور و شور سے کی جاتی اور کاشن دیے جاتے تھے ؛ ایچ، نی، سن، شی، گا، ہک، سچ، رک، زو۔ گرمیوں میں جب پسینہ بہت زیادہ آ جاتا اور انسان گرنے لگتا تو آپ سب پر پانی ڈالتے تاکہ انسان نڈھال ہو کر گر نہ جائے۔ اس طرح کلاس جاری رہتی۔ ہم نے بمشکل تین ماہ کراٹے کی کلاس لی لیکن جسم میں توانائی اور پھرتی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

کراٹے کلاس میں صرف کلاس نہیں ہوتی بلکہ مختلف قسم کے کھیل بھی کھیلے جاتے تھے تاکہ بچوں میں دلچسپی برقرار رہے۔ ایک کھیل ایسا تھا جس کو گھوڑی گھوڑی کہتے ہیں۔ ایک ٹیم گھوڑی بنتی اور دوسری ٹیم دور سے بھاگتے ہوئے آتے اور گھوڑی پر سوار ہوتے۔ اگر سوار کے پاؤں نیچے زمین پر لگ جاتے تو وہ ہار جاتے۔ اس کھیل میں اکثر ہم اپنی ٹیم کے ہارنے کا باعث بنتے کیونکہ نہ ہم میں پھرتی تھی نہ توانائی کہ ہم دوڑ لگا کر لمبی چھلانگ مار کر آگے جا سکیں۔

اس لیے ہمیں آخر میں بھیجا جاتا اور ہم سوار ہونے کی بجائے زمین پر آ گرتے اور اپنی ٹیم کو لے ڈوبتے۔ تین ماہ کی کلاس کے بعد ہم کراٹے سینٹر کو چھوڑ گئے لیکن حسن بھائی کی خوشبو ہمارے ساتھ رہی۔ پھر چار پانچ سال کے بعد جب ایف ایس سی کے بعد ہمارا وزن بے پناہ بڑھ گیا تو ایک بار پھر ہم نے حسن جم کا رخ کیا۔ اس دفعہ ہم نے ڈمبل اٹھانے کا سوچا کہ شاید کچھ افاقہ ہو۔ حسن بھائی نے ایک مرتبہ پھر ہم کو اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا بلکہ کراٹے کا حصہ بننے کی وجہ سے جو جم کی معمولی سی فیس تھی اس میں بھی کمی کی کیونکہ ہم جم کے ’اولڈ بوائے‘ جو تھے۔

جم کیا تھا لوہے کا بازار تھا۔ حسن بھائی نے جم اپنے ہی گھر کے نچلے حصہ میں بنا رکھا تھا جبکہ رہائش اوپر کے حصہ میں تھی۔ جم کی تمام مشین حسن بھائی نے اپنے ہاتھ سے بنائی تھی۔ کوئی مشین بھی باہر سے نہ خریدی گئی تھی بلکہ اس کو خود تیار کیا گیا تھا۔ لیکن دیسی لوہا ہونے کے باوجود تمام مشینوں کے زاویے بالکل درست تھے جیسے کہ کسی مکمل سائنسی انداز میں بنائی گئی ہوں۔ حسن بھائی کھانے پینے کے شوقین تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ چار بندوں کا کھانا اکیلے کھا جاتے تھے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا قد بت بھی ہم جیسے دو بندوں کے برابر تھا۔

پانچ وقت کے نمازی، روزے کے پابند، جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اتنی خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے کہ لگتا کہ اللہ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ وہ طاقت کا سرچشمہ تھے لیکن آج تک ہم نے ان کو کسی سے بھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا اور نہ جھگڑتے دیکھا، بس چہرے پر ہلکا سا تبسم ہر وقت موجود رہتا۔ وہ تین بھائی تھے، احمد حسن، کاکو اور چاند۔ وہ اپنے بھائیوں کو انہی ناموں سے پکارتے تھے اس لیے جم کا ہر فرد بھی یہی نام لیتا تھا۔

ان کے اصل نام ہمیں معلوم نہیں نہ ہم نے معلوم کرنے کی کوشش کی۔ کاکو جو کہ بے روزگار تھا اس کے لیے حسن بھائی نے اپنی والدہ کے کہنے پر اپنا بنا بنایا جم چھوڑ دیا اور دوبارہ نئے سرے سے ایک نیا جم بنایا جو کہ پرانے حسن جم سے ایک گلی چھوڑ کر تھا اور اس کا نام ’احمد حسن جم‘ رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جم ایسا آباد ہوا کہ اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور احمد حسن جم پر لڑکوں کا ایک جم غفیر دکھائی دیتا تھا۔

ہم بھی حسن بھائی کے ساتھ ان کے نئے جم آ گئے اور وہاں ورزش کرنا شروع کی۔ حسن بھائی نے ہم کو ڈمبل پکڑنا سکھایا، ورزش کرنے کے آداب بتائے بلکہ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ اتنی زیادہ طاقت کے باوجود بھی آپ کیسے اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں بلکہ ورزش آپ کو طاقت نہیں بلکہ اپنے آپ پر قابو سکھاتی ہے۔ ہم کو بارہ تیرہ سال ہو گئے ہیں کہ ہم بسلسلہ روزگار شہر سے باہر آباد ہیں لیکن آج تک حسن بھائی کی صورت اور سیرت نہیں بھولے۔ کچھ ملاقاتیں ہوئی لیکن کہتے ہیں کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ آج سے کچھ دن پہلے حسن بھائی کی موت کا معلوم ہوا کہ وہ ٹائیفائیڈ کی وجہ سے ہم کو چھوڑ گئے ہیں تو دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ اچھے لوگوں کی زندگی اتنی مختصر کیوں ہوتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments