کیا رحم دلی آپ کی کامیابی کے راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے؟


نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم
شاید ہم سب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ مہربان ہونا اچھی چیز ہے، کسی پر مہربان ہونا اخلاقیات کا تقاضہ بھی ہے، لیکن کیا واقعی دوسروں پر مہربانی کر کے آپ خود بھی کامیاب انسان بن سکتے ہیں؟ کیا مہربانی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ دوسروں کے مفادات کو اوّلین رکھیں؟ کیا مہربانی واقعی آپ سے اپنی خواہشات کی قربانی نہیں مانگتی؟

لیکن دوسری جانب آپ جوتے مرمت کرنے والی مشہور کمپنی ’ٹِمپسن‘ کے سربراہ جیمز ٹِمپسن، نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈن، یا انگلینڈ کی فٹبال ٹیم کے کامیاب ترین مینیجر گیرتھ ساؤتھگیٹ کو دیکھ لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تینوں اپنے اپنے شعبوں کے ’نہایت کامیاب‘ افراد ہیں لیکن اگر آپ ان سے پوچھیں تو تینوں یہی بتاتے ہیں کہ ان کی حکمت عملی کا اوّلین جزو مہربانی اور نرم دلی ہے۔

ان کامیاب افراد کی زندگی کا سبق یہی ہے کہ اگر آپ کاروبار، سیاست اور کھیلوں کی دنیا میں زیادہ ہمدرد اور بظاہر ’نرم‘ رویہ اپناتے ہیں تو نہ صرف یہ چیز دوسروں کے لیے مثبت ثابت ہوتی ہے بلکہ خود آپ کے لیے بھی یہ حمکت عملی فائدہ مند ہوتی ہے۔

مگر آج کل اس ’روایتی‘ سوچ کو رد کیا جا رہا ہے یعنی اگر آپ کسی بھی میدان میں کامیاب شخص بننا چاہتے ہیں تو آپ کو بے رحم ہونا چاہیے، آگے بڑھنے کے جذبے سے سرشار ہونا چاہیے اور آپ کی نظر اپنے ہدف یا مقصد پر مرکوز رہنی چاہیے۔

اب اس بات کے بہت سے سائنسی شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ مہربان اور نرم طبیعت افراد یہ دوڑ جیت سکتے ہیں۔ سنہ 2020 میں میں خود برطا نیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس  کی ایک ٹیم کے ساتھ کام کر رہی تھی جو اس موضوع پر تحقیق کر رہی تھی کہ مہربانی کے بارے میں لوگ کیا سوچتے ہیں۔

یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔ اس تحقیق میں 144 ممالک میں 60 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ایک سوالنامہ دیا گیا جسے ’مہربانی کا ٹیسٹ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ تحقیق بی بی سی کی عالمی سروس کے تحت ریڈیو کے ذریعے کی جا رہی تھی اور میں اس پروگرام کی میزبان تھی۔

جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ انھیں ہمدردی کے کام کہاں پر سب سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں تو لوگوں کی نظر میں تیسرا بڑا مقام دفاتر تھے۔ پہلے نمبر پر کا اپنا گھر بتایا گیا اور دوسرے نمبر پر ہسپتال وغیرہ تھے۔

لوگوں کی نظر میں یہ وہ تین بڑے مقامات تھے جہاں ہمیں ہمدردی اور مہربانی کے جذبات کا سب سے زیادہ اظہار دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جگہ جس کے بارے میں شاید یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہاں دوسروں کی گردن کاٹ کر آگے بڑھا جاتا ہے، اور لوگ ایک خاص مقام تک پہنچنے کے لیے آپس میں لڑتے ہیں، وہاں آپ کو اتنی زیادہ مہربانی اور نرمی دکھائی دی جس کا آپ شاید تصور بھی نہیں کر سکتے۔

 انگلینڈ کی فٹبال ٹیم کے مینیجر گیرتھ ساؤتھگیٹ

لوگ سمجھتے ہیں کہ انگلینڈ کی فٹبال ٹیم کے مینیجر گیرتھ ساؤتھگیٹ کی کامیابی کا سہرا ان کے مـزاج کی نرمی اور ہمدردی کے سر جاتا ہے

لوگ سمجھتے ہیں کہ انگلینڈ کی فٹبال ٹیم کے مینیجر گیرتھ ساؤتھگیٹ کی کامیابی کا سہرا ان کے مـزاج کی نرمی اور ہمدردی کے سر جاتا ہے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس تحقیق میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے جواب کے لیے جس شخصیت یا مقام کا انتخاب کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔

اس حوالےسے جب ہم نے ابتدائی طور پر برطانیہ میں ایک کنسلٹینسی فرم سے منسلک 15 سو افراد سے سوال کیے تو اس کے نتائج کچھ زیادہ مثبت نہیں تھے۔ ہر تین میں سے صرف ایک شخص کا کہنا تھا کہ اس کا باس یا افسر مہربان شخص ہے، جبکہ ایک چوتھائی لوگوں کے مطابق ان کے دفتر یا تنظیم کا سربراہ ایک نامہربان شخص ہے۔

لیکن اگر آپ اس تحقیق کے نتائج پر گہری نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ایسے لوگ جن کے باس واقعی مہربان تھے ان کے ہاں یہ امکان زیادہ تھا کہ وہ کم از کم آئندہ ایک سال تک اسی کمپنی کے لیے کام کرنا پسند کریں گے، اور یہ کہ ان کی ٹیم مل کر زبردست کام کر رہی ہے اور یہ کہ ان کی کمپنی مالی لحاظ سے بھی بہت اچھی جا رہی ہے۔

جائزے میں حصہ لینے والے مختلف ملازمین میں سے 96 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ بات اہم ہے کہ جائے روزگار پر لوگ ایک دوسرے پر مہربان ہوں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی کمپنی کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اس کے لیے اپنے ملازمین سے نرمی سے پیش آنا ایک اہم چیز ہے۔

اس خیال کو سائیکومیٹرکس کے امریکی ماہر، جو فولکمین کے تحقیق سے بھی تقویت ملتی ہے۔ سائیکومیٹرکس نفسیات کی ایک شاخ ہے جس میں نفسیاتی رجحانات کو ٹیسٹ کر کے ماپا جاتا ہے۔

جو فولکمین نے اپنی تحقیق میں بڑی بڑی کاروباری شخصیات کے بارے میں  50 ہزار سے زیادہ ملازمین کی رائے کا ہر زاویے سے جائزہ لیا اور انھیں معلوم ہوا کہ ایسے باس جن کو ان کے ملازمین زیادہ پسند کرتے ہیں، ان کے مؤثر ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں، یعنی وہ ملازمین سے اپنی بات زیادہ آسانی سے منوا لیتے ہیں۔

جو فولکمین کی تحقیق میں شاید زیادہ عجیب بات یہ سامنے آئی کہ ایسے باسِز کی تعداد انتہائی کم تھی جن کا پسندیدگی کا سکور کم تھا اور وہ پھر بھی پُر اثر تھے۔ جو فولکمین کے اعداد وشمار کے مطابق اس بات کا امکان دو ہزار میں ایک تھا کہ کوئی باس اپنے عملے کا ناپسندیدہ ہو اور وہ مؤثر بھی ہو۔

جو فولکمین کو تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسی کمپنیاں جن کی سربراہی ایسے شخص کے ہاتھ میں تھی جسے لوگ پسند کرتے تھے، تو اس کے بہت سے مثبت نتائج نکلتے ہیں، جن میں زیادہ منافع اور صارفین کا زیادہ مطمئن ہونا بھی شامل ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کاروباری تحقیق کے شعبے میں مہربان رہنما کی لیڈرشپ کو ’اخلاقی رہنمائی‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ اصطلاح زیادہ نرم اور قابلِ قبول سنائی دیتی ہے۔ لیکن آپ اسے جو نام چاہیں دیں لیں، تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر سربراہ ’اخلاقی‘ رہنمائی فراہم کرتا ہے تو دفتر میں مثبت فضا پیدا ہو جاتی ہے اور ملازمین کی کارکردگی بھی بہتر ہو جاتی ہے۔

مثبت رویے کی لہر پورے دفتر میں پھیل جاتی ہے، اور یہ بات اٹلی کی یونیورسٹی آف پڈوا سے منسلک ماہر نفسیات، مائیکل اینجلو ویانلو کی تحقیق سے بھی معلوم ہوتی ہے۔

 روجر فیڈرر

ٹینس سٹار روجر فیڈرر کی مثال بھی دی جاتی ہے کہ مہربان اور سادہ مزاج ہونے کے باوجود انھوں نے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں

تحقیق سے اس بات کے ثبوت بھی ملتے ہیں کہ اگر جائے روزگار پر کوئی ذرا مہربانی اور تعاون دکھاتا ہے تو اس سے بھی خاصا فرق پڑتا ہے۔ نفسیات کی دنیا میں ایک چیز ایسی بھی ہوتی ہے جسے ’آرگنائزیشنل سٹیزن شِپ بیہیوئر‘ یا ’ شہریت پسند تنظیمی رویہ‘  کہا جاتا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہو سکتی ہے کہ آپ پرنٹر سے اپنا پرنٹ لینے جاتے ہیں اور وہ خراب ملتا ہے تو آپ اسے ٹھیک کر دیتے ہیں تا کہ آپ کے بعد میں آنے والے ساتھی کو تکلیف نہ ہو، یا دفتر میں پڑے ہوئے پودے کو پانی دینا وغیرہ۔ یہ کام آپ کی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں ہوتے، لیکن اگر آپ پھر بھی اس قسم کے کام کرتے ہیں تو تمام لوگوں کے لیے دفتر کا ماحول قدرے بہتر ہو جاتا ہے۔

اس کے اثرات آپ کے اندازے سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ مثلاً سنہ 2009 میں یونیورسٹی آف ایریزونا کے محقق نتھین پوڈساکوف نے 150 مختلف تحقیق کا تجزیہ کیا تو نتائج بالکل واضح تھے۔ تـجزیے سے ثابت ہوا کہ اس قسم کی چیزیں بظاہر بہت معمولی دکھائی دیتی ہیں، لیکن ان کے اثرات دفتر میں بہتر کارکردگی، زیاہ دل لگا کر کام کرنے اور آپ کے صارفین پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔

زندگی کا ایک شعبہ ایسا بھی ہے جس کے بارے میں شاید آپ سوچتے ہوں کہ یہاں مہربان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور یہ شعبہ سیاسی میدان ہے جہاں ہر شخص اپنے مخالف کا منہ توڑ جواب دینے پر تلا ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں اس میدان میں بھی ایسے شواہد دکھائی دیتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ اگر آپ مہربانی اور نرمی سے کام لیتے ہیں تو تب بھی آپ عروج پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن ہیں۔

لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے منہ زور سیاستدان کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کیا ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی یہ نہیں بتاتی کہ آخر کار سیاست میں بھی سخت اور نامہربان رویہ ہی کارگر ثابت ہوتا ہے؟

لیکن ایک امریکی پروفیسر اور محقق، جیریمی فریمر کی تحقیق کی نتائج اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ جیریمی فریمر نے سنہ 1996 اور سنہ 2015 کے درمیانی عرصے میں امریکی کانگریس میں کی جانے والی تقاریر کا جائزہ لیا۔ اس کے مطابق جب جب کانگریس کے کسی رکن نے غیر مہذب تقریر کی عوام میں اس کی پزیرائی میں کمی آئی اور جب کسی رکن نے زیادہ مہذب زبان استعمال کی اور اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے فراخدلی کا مظاہرہ کیا، اس رکن کو لوگوں نے زیادہ سراہا۔

مہرباں

بعض اوقات لگتا ہے کہ شاید بزنس اور کئی دیگر شعبوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ منہ پر مکھی نے بیٹھنے دیں

حالیہ عرصے میں جیریمی فریمر نے ٹوئٹر پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر لوگوں کے ردعمل پر بھی تحقیق کی جس میں معلوم ہوا کہ جب بھی انھوں نے کوئی بیہودہ ٹویٹ کی تو ان کے بڑے بڑے حامیوں میں سے بھی محض چند نے اسے گرمجوشی سے ’لائیک‘ یا پسند کیا۔

اگرچہ ان ٹویٹس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کے چاہنے والوں نے ان کی حمایت کرنا نہیں چھوڑا، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گندی زبان استعمال کی تھی، بلکہ اس کی وجوہات مختلف تھیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے کئی افراد کی مثالیں موجود ہیں جنھیں لوگ پسند نہیں کرتے اور وہ اپنی ذات میں ہی گم رہتے ہیں، لیکن پھر بھی کامیاب رہتے ہیں۔ مشہور ٹی وی سیریز ’ایپرنٹس‘ یا ’سکسیشن‘ جیسے پروگرام دیکھ کر بعض اوقات لگتا ہے کہ شاید بزنس اور کئی دیگر شعبوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ منہ پر مکھی نہ بیٹھنے دیں اور بات بات پر نخرے دکھائیں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کامیابی کے لیے ایسا ہونا ضروری نہیں۔

 کلاڈیا ہیمنڈ ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں جس کا عنوان ہے ’کیز ٹو کائینڈنیس‘ یعنی ’مہربانی کی کُنجیاں۔‘  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments