سرگودھا یونیورسٹی زوال کا شکار کیوں ہوئی؟


شاہینوں کے شہر کی بڑی پہچان تو سنگترے مالٹے تھے، اور ہیں، جن کا ثانی پوری دنیا میں نہیں، اہم یہ کہ ائر فورس کی پاداش میں اس شہر کو شاہینوں کی آماجگاہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاریخی حوالے اور بھی ہوں گے تاہم جدید تحریکی و تاریخی حوالوں میں یونیورسٹی آف سرگودھا نے بھی اس شہر کو چار چاند لگائے۔ جدتوں میں موٹر وے نے بھی اس شہر کو بہت اہم بنا دیا، کہ ایم ٹو کم و بیش تین چار جگہوں سے سرگودھا جانے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ سن 2002 کے ایکٹ میں بننے والی یہ یونیورسٹی حقیقت میں گورنمنٹ کالج سرگودھا ( 1946 تا 2002 ) کی وسعت تھی۔ اور سرگودھا کالج ڈی مونٹمورنسی کالج ( 1929 تا 1946 ) کی ارتقائی شکل تھا۔

بانی وائس چانسلر ( 2002 تا 2007 ) ۔ پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق طارق (پروفیسر آف ایجوکیشن، بہاوالدین زکریا یونیورسٹی 2000 تا 2013 ) نے جامعہ سرگودھا کو ایک کالج سے جامعہ میں بدلنے کے لئے اس زمانے کے اعتبار اور مروجہ سہولیات کے تناظر میں شبانہ روز کوشش کی، یونیورسٹی شکل اور کالج کے اساتذہ کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنے کی پیچیدگی وائس چانسلر کے لئے ہمیشہ کڑوی گولی ہوئی ہے تاہم ڈاکٹر ریاض الحق طارق نے اس دانش گاہ کو ایک رنگ روپ اور ابتدا سے خوب نوازا، قیادت پر جو عام الزامات آتے ہیں اس فیشن کا سامنا انہیں بھی کرنا پڑا جس میں بڑا الزام برادری ازم کو فروغ دینا، اور اپنے عزیز و اقارب کو خوب نوازنے کا چرچا تھا تاہم ان معمول کے الزامات کے برعکس یونیورسٹی کو بنیادی انفراسٹرکچر سے نوازنا اور آنے والوں کو ایک ہموار تعلیمی و تدریسی و تحقیقی شاہراہ فراہم کرنا ڈاکٹر ریاض الحق کا ایک قابل تحسین اقدام تھا، بہرحال ریاض الحق طارق کی قیادت ابتدائی مراحل پر قابل ستائش ٹھہری، کہ بعد کی قیادت کو ایک عمدہ پلیٹ فارم دیا، جسے بعد کی مقامی سیاسی قیادت یا یونیورسٹی لیڈر شپ نے جتنی بھی گزند پہنچائی بہرحال یونیورسٹی کا سفر کامرانی سے چلتا رہا۔

پاکستان میں یونیورسٹیوں کے قیام کی دوسری/ تیسری بڑی فیز 2002 کا ایکٹ ہی لایا جس میں سرگودھا یونیورسٹی نے ہم عمر اور ہم عصر جامعات کی رہنمائی اور کئی بڑی عمر کی معروف یونیورسٹیوں کے اپنی کارکردگی سے دانت بھی کھٹے کیے بہرحال پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کی قیادت جہاں ہنگامہ خیز اور پسند و ناپسند کا آمیزہ رہی وہاں پیراڈائم شفٹ کا پیش خیمہ بھی بنی!

یہی وہ دور تھا جب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بھی بدلا۔ کسی نئی یونیورسٹی کا تحقیق کو آگے لے کر چلنا، فنانس مینجمنٹ اور ایچ ای سی معیار کا بول بالا رکھنا، فیکلٹی کو جدید تقاضوں کے عین مطابق چننا، لیبارٹریز اور دیگر تعمیر سازیوں کو ابتدا اور جلا بخشنا آسان کام نہیں ہوتا۔ اسی دور میں یونیورسٹی آف گجرات اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد وغیرہ یونیورسٹیوں کو ایک دفعہ تو پیچھے چھوڑ کر سرگودھا یونیورسٹی نے جمال اور کمال کی مثال پیدا کی۔

ہر جامعہ کی قیادت کو چار اہم کاموں کو اوڑھنا بچھونا بنانا پڑتا ہے، اور نوخیز یونیورسٹی میں یہ بڑا چیلنج ہوتا ہے، کہ ( 1 ) فنانس مینجمنٹ ( 2 ) ریسرچ مینجمنٹ ( 3 ) مارکیٹنگ اور ( 4 ) فنڈ ریزنگ میں تسلسل اور وسعت برقرار رہے۔ اس ضمن میں مقامی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی سے بچ بچا کر چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ عالمی معیار کی خاطر، آگے چل کر انفراسٹرکچر کی بڑھوتری، ٹیچنگ، ریسرچ، سائٹیشن، انڈسٹری انکم اور بین الاقوامی لنکس کو ساتھ لے کر چلے بغیر یونیورسٹی، یونیورسٹی نہیں رہتی!

پھر ”اورک“ ، کیو ای سی، بورڈز آف سٹڈیز اور اکیڈمک کونسل وغیرہ کو متوازن چلانے کے علاوہ سنڈیکیٹ کو کرائم سنڈیکیٹ بننے سے بچانا قیادت کی صلاحیتوں کو جھنجھوڑتے ہیں۔ انہیں معاملات کی کیمسٹری اور ہسٹری کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر اکرم چوہدری اس دور میں ایک نئی یونیورسٹی کو ”خوش آب“ واٹر کے انڈسٹریل اور کاروباری لنک کو متعارف کرایا جب جامعات آنٹرپرنیورشپ اور انڈسٹریل لنکس سے دور کھڑی تھیں، ماڈل فارمیسی، کمرشل و رفاہی ہیلتھ سنٹر، اور ریسرچ کی مختلف نزاکتوں سے خوب روشناس کرایا۔

اہل نظر جسے چاہا ہی نہ چاہنے والوں کی طرح، وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام تھا، جس کا لوگوں کو اب ادراک ہونے چلا ہے۔ آج تعلیم، تحقیق، انڈسٹریل نشوونما اور بزنس ماڈل کے طور پر اسے لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے، اس خوبی کو ڈاکٹر اکرم چوہدری ( 2007 تا 2015 ) کے حاسدین اور عاقبت نا اندیشوں نے خامی، اور اس ویژن کو کم فہمی بنا کر پیش کیا، جب اکرم چوہدری نے الحاق دینے کی پالیسی کو عام کیا تو پنجاب، زکریا اور اسلامیہ یونیوسٹی جیسی یونیورسٹیوں کو پنجاب میں ہلا کر رکھ دیا اور مقابلہ کی دعوت دی، آج جی سی یو ایف سے اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور، کیا زکریا اور کیا گجرات سبھی اسی ڈگر کی متلاشی ہیں۔

لیکن اکرم چوہدری مقامی سیاست بالخصوص ڈاکٹر نادیہ عزیز اور چوہدری حامد حمید کے علاوہ کچھ اور ”مہربانوں“ کی زد میں تو آئے، نیب نے بھی خوب رگیدا، ایک سال پابند سلاسل بھی رہے مگر جو مثال قائم کی وہ آج قابل تقلید گردانی جاتی ہے۔ بہرحال ڈاکٹر ریاض الحق طارق کی طرح برادری تعصب کا ایک ”ننھا منا“ الزام اکرم چوہدری کے سر بھی بہرحال ہے۔ بہرحال پاکستان بھر میں سرگودھا یونیورسٹی اور سرگودھا کا جھنڈا لہرانے کا کریڈٹ ڈاکٹر اکرم چوہدری سے چھیننا ناممکن لگتا ہے!

افسوس کہ، ڈاکٹر اکرم چوہدری کو اس دور میں ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد اور پی ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر نظام الدین نے بھی اٰتنا نہ سراہا جتنا سراہنا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر اکرم چوہدری (پروفیسر: جامعہ پنجاب، جامعہ اسلامیہ، جامعہ زکریا۔ ) کا پیراڈائم شفٹ برپا کرنا اپنی جگہ 2002، 2009، 2011 اور 2018 اور بعد کے ایکٹس والی جامعات کے لئے ایک سبجیکٹ ہے۔ تمنا ہے کہ، آئی ای آر جامعہ پنجاب یا سرگودھا ہی کا محقق ”جامعہ سرگودھا کے عروج و زوال“ ہر کوئی مقالہ/ تھیسس کرے، کہ گلشن کا کاروبار چلے جو جامعات اور قیادت کے لئے مشعل راہ ہو۔ پیش خدمت کاوش، تحریر کا تنقیدی جائزہ بحث و تمحیص کے دریچے کھولے گا۔ یونیورسٹیوں پر ازخود ریسرچ کی یونیورسٹیوں میں ہونے والی ریسرچ سے زیادہ ضرورت ہے!

جامعہ سرگودھا کے زوال کی بڑی وجہ سرگودھا سیاست کا یونیورسٹی میں جہاں بے جا دخل تھا وہاں بے وجہ یونیورسٹی قیادت کا برادری ازم کو فروغ دینا بھی تھا جس نے تحقیقی و تعلیمی کلچر کا راستہ ”روایتی و دیہاتی“ اور تعصب و حسد کے ہتھکنڈوں سے روکا، یونیورسٹی کے مخصوص ایکو سسٹم میں بگاڑ کے در وا ہوئے۔ بعد ازاں ڈاکٹر اشتیاق ( 2016 تا 2021 ) کے دور میں چہ جائیکہ تعلیمات و تحقیقات کو رواج بخشا جاتا اس کے برعکس مقدمات و خدشات نے رنگ پکڑا، سنڈیکیٹ اپنا افتخار اور وقار کھوتی گئی، یوں کرائم سنڈیکیٹ کا شبہ ہونے لگا۔

والدین، سینئر اساتذہ، طلبہ اور الحاق شدہ اداروں کو اسٹیک ہولڈرز سمجھنے اور معاون بنانے کے بجائے انتظامی امور پر فائز کم سن منتظمین نے عہدے بچانے کی خاطر چاپلوسیوں کی انتہا کر کے جینؤین اسٹیک ہولڈرز کو بے توقیر کیا۔ ظاہر ہے کرپٹ اور جونئیرز جب سینیئرز کے انکوائری افسر بنیں گے تو گنگا الٹی ہی بہے گی۔ سرگودھا یونیورسٹی کے کیس اعلیٰ عدالتوں میں بڑھنے لگے، ایکٹ سے رولز اینڈ ریگولیشن کو بالائے طاق رکھا گیا، جامعاتی و نامیاتی معاونت کے بجائے پروفیسر اور ریسرچر ریسلر بنتے چلے گئے، ایک شخص اور چار چار عہدوں کی نمبرداری نے پانچویں گئیر میں دوڑتی یونیورسٹی کو دھکا اسٹارٹ بنا دیا۔ جب پروفیسرز کلاسز اور ریسرچ چھوڑ کر ٹی اے ڈی اے ہی کے رسیا ہو کر رہ جائیں تو پیچھے کیا بچتا ہے؟ جب لیبارٹریز و لائبریریز اور اساتذہ و طلبہ سے فوکس ہٹا کر محض ”سول ورکس“ ہی کو ’اوڑھنا بچھونا‘ بنالیا جائے تو یہ تعمیر کاری بھی تخریب کاری ہی بن جایا کرتی ہے!

المختصر، قیادت پر پیرے بھی بنتے ہیں، بیوروکریسی بھی آڑے آتی ہے، سیاسی پکوان بھی پکتے ہیں، تعصب کی دکانداریاں بھی یونیورسٹیوں کا معمول سہی لیکن جہاں نظریاتی یا اصولی اختلاف جانی دشمنیوں میں بدلنا شروع ہو جائے اور تحقیق کی زرخیزی بنجر ہو جائے اسے یونیورسٹی کہنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے، زوال کی وجہ ایکٹنگ وائس چانسلرز کی تعیناتی بھی رہی جس میں ڈاکٹر محمد علی ( 2011۔ 6 ماہ) اور ڈاکٹر ظہور الحسن ڈوگر ( 2016 ایک سال سے زائد) ڈاکٹر نادرہ (چند دن 2016 ) کی ناتجربہ کاری اور تنگ نظری کو فراموش نہیں کیا جاسکتا حالیہ قیادت کو پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر ( 2021 ) اور پروفیسر سلیم مظہر ( 2022 ) کی قیادتوں نے کم از کم انتظامی امور کا کچھ قبلہ تو درست کر کے دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے چند ماہ قبل ”زمام جامعہ“ سنبھالنے والے ڈاکٹر قیصر عباس اس تعصب، بغض، ناتجربہ کاری، عہدوں کے ہوس، الحاقی زوال، تحقیقی تالا بندی اور تساہل سے لدے اونٹ کو کس کروڑ بٹھاتے ہیں؟

مسئلہ یہ نہیں کہ یونیورسٹی آف سرگودھا کو زندہ درگور کرنے والوں کو سزا دی جائے، ضرورت اس امر کی ہے کہ، یونیورسٹی کو تو جزا دی جائے۔ متعدد ماہر تعلیم، تجزیہ کار، بیوروکریسی یا پی ایچ ای سی یا ایچ ای سی کے کچھ لوگ موجودہ وائس چانسلر کی ہنوز ”سدھ پٹھ“ سے ہنوز ناآشنا ہیں (بقول ان کے ) تاہم آگے آگے دیکھئے کیا پیش رفت ہوتی ہے کیا نہیں! بہرحال گلشن کے کاروبار کے لئے ضروری ہے کہ اؤل، انتظامی و تحقیقی و تدریسی میرٹ ہو۔

دوم، تفویض کاری میں چشم بینا سے کام لیا جائے۔ سوم، پروفیسروں کو محقق اور مدرس بنایا جائے کسی قبیلے کا سردار یا تیس مار خان نہیں۔ چہارم، وی سی، وی سی آر نہیں قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہو جو معاملہ فہمی و صلح جوئی سے ٹیم کو لے کر چلے اور سنڈیکیٹ میں وسعت نظر اور تعلیم دوستی کا فقدان نہ ہو، بے جا انکوائریوں کا بستر گول ہو گا تو فراست اور ذہانت کی ذرخیزیاں بارآور ہوں گی! پنجم، ”اورکس“ ، کیو ای سی، انٹرپرنیورشپ، انڈسٹریل لنکس، کنسورشیم، ٹیچر ٹریننگ، اپلائیڈ ریسرچ اور میرٹ وغیرہ جیسی اشیا کو تقویت بخش کر یونیورسٹی آف سرگودھا کو قابل تقلید روشن باب بنایا جا سکتا ہے!  اور سرگودھا یونیورسٹی کے عروج و زوال کی داستان دھڑا دھڑا بننے والی یونیورسٹیوں کے لئے ”لازمی مضمون“ ہے!

۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments