پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کی صوبائی سیاست کے رنگ


سیاست کے صوبائی موسموں کی تصویر گزشتہ 37 برس سے کچھ یوں ہے کہ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں کم از کم ایک صوبے پر انحصار کرنے کی حکمت عملی کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ تحریک انصاف مسلسل دو دفعہ سے خیبر پختونخوا کی زمام اقتدار سنبھالے ہوئے ہے اور پیپلز پارٹی مسلسل 2008، 2013 اور 2018 میں سندھ میں فاتح رہی۔ مسلم لیگ (نواز) جو 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے متعدد بار پنجاب کی فاتح رہی، اسے 1993 میں جونیجو لیگ کے پیپلز پارٹی سے اتحاد کے نتیجے میں پنجاب میں جزوی شکست ضرور ہوئی جس کی بڑی وجہ صدر غلام اسحاق خان سے چپقلش تھی۔ پھر 2002 میں جنرل پرویز مشرف راستے کی دیوار بنے اور قاف لیگ کے پاس پنجاب حکومت آ گئی۔ اس کے بعد 2008 اور 2013 میں مسلم لیگ (نواز) کا راستہ کوئی نہ روک سکا اور یہ پنجاب کے سیاہ و سفید کی مالک رہی۔ تاہم 2018 کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (نواز) اور عنان اقتدار کے درمیان ”نادیدہ قوت“ آ گئی ورنہ عددی اعتبار سے پھر مسلم لیگ (نواز) آگے تھی۔ وہی فارمولا جو میاں نواز شریف 1985 سے تاحال بروئے کار لاتے رہے، اسی کو تحریک انصاف نے آزمایا اور آزاد ممبران ساتھ ملا کر حکومت بنا لی۔ ”اہل نظر“ کو احساس ہے کہ پنجاب پر حکومت نہیں تو مرکز پر گرفت مضبوط نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت کھو جانے کے باوجود عمران خان اتراتے پھرتے ہیں کہ پنجاب کے وہ حاکم ہیں، بیچ میں حمزہ شہباز آئے بھی مگر قوت بخش دوستوں نے تحریک کو نہ سہی ”تاریخ“ کو وزارت اعلیٰ پنجاب سے نواز دیا جس کے متعلق چشم بینا رکھنے والوں کچھ آگہی تھی اور کچھ اندازہ۔

پرویزالٰہی کو 2002 کے بعد 2022 میں دوبارہ موقع ملا ہے، کیوں اور کیسے ملا؟ اس اوپن سیکرٹ کا اظہار دو دن قبل مونس الٰہی کی زبانی سامنے بھی آ چکا۔ ہم تو پہلے ہی سے دست بستہ عرض کرتے رہے ہیں کہ پرویز الٰہی کا سہولت کار کون ہے۔ بہرحال دوسری دفعہ کے مختصر اقتدار کا حصول پرویزالٰہی کو مہنگا پڑا، چوہدری شجاعت حسین سے بگڑی اور بہت بگڑی جو ایک عمر بھر کا بھرم تھا۔ حصول سے بہرحال یہ نقصان بڑا ہے جس کا احساس مونس الٰہی کو کچھ عرصہ بعد میں ہو گا جیسے قتیل شفائی نے کہا تھا: کچھ خضر کے ساتھ، چلے تھے دریا کرنے پار / وہ پانی میں ڈوب گئے اور میں حیرانی میں۔

صوبوں کے اس منظر نامہ کو جمہوریت کی تفویض اور باہمی ربط قرار دینا احسن زاویہ ہو گا۔ جمہوریت کے یہی منفرد رنگ ہیں جو اکائیوں کو موتیوں کی طرح جوڑ کر ایک خوش رنگ مالا بناتے ہیں، بھلے اس مالا کے موتی مختلف رنگوں کے ہوں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی پارٹیاں علاقے ہی تک محدود کیوں نہ ہوں، یہ ضروری ہے کہ ان کی فکری وسعت وفاقی اور قومی ہو۔ جمہوریت صوبائی ہو یا قومی، یہ ہر صورت میں انسانی حقوق اور ملک و ملت کی پاسداری کا پرچار اور وقار ہوتی ہے۔

جہاں تک سیاسی پارٹیوں کی حکمت عملی کا معاملہ ہے، اس میں تحریک انصاف کو اب بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے پریشر گروپ طرز سے باہر نکل کر خارجی، داخلہ اور معاشی معاملات کا ادراک رکھنا اشد ضروری ہے۔ ”قوت“ کو بے پناہ ہونے سے روکنے کے لئے لازم ہے کہ سیاسی و جمہوری گری ہر کوچہ و بازار میں ہو جہاں پر کہیں مسلم لیگ (نواز) ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی یا دیگر جماعتوں کا سیاسی فہم اور جلوہ ملے۔ اس سے مشاورت اور میرٹ کو تقویت ملتی ہے۔ ہمیشہ سے یہ جمہوری حسن رہا ہے کہ اپوزیشن کے اطوار حکومتی اقدار پر چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں۔

شاید سبھی صوبوں کی سیاست قابل فہم ہے تاہم خیبر پختونخوا ناقابل فہم ہے کہ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا۔ جو صفایا پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ہوا، اس کی ایک ترتیب تھی لیکن خیبر پختونخوا میں جہاں مولانا حضرات پنپتے ہیں وہاں اے این پی نظریہ بھی پروان چڑھتا ہے گویا سرخے اور سبزے سنگ سنگ چلتے تھے۔ شاید افغان فیکٹر نے ماضی کی سیاسی کیمسٹری کو نیست و نابود کر دیا۔ خیر مسلم لیگ (نواز) کے پاس خیبر پختونخوا میں مرتضیٰ جاوید عباسی اور امیر مقام کی صورت میں ایسی قیادت ہے جو مسلم لیگ (نواز) کا بول بالا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مرتضیٰ جاوید عباسی کے والد جاوید اقبال عباسی بھی مسلم لیگ کا انمول سرمایہ رہے اور ہزارہ کی روایات کے امین اب وفاقی وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی ہیں ان کا وسیع تجربہ کہتا ہے کہ انہیں مستقبل میں خیبر پختونخوا وزارت اعلیٰ کے لئے تراشا جائے۔ امیر مقام تو ماضی میں ادھر ادھر ہوئے لیکن عباسی نہیں۔ پیپلز پارٹی کو نظریاتی رنگ اور محنت کو بروئے کار لانا پڑے گا کہ نادیدہ قوتیں کسی ایک کو میننج نہ کرسکیں۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں آگے بڑھنے کے لئے راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور کے علاوہ لاہور سے نوید چوہدری وغیرہ کو سنگ سنگ لے کر چلنا ہو گا۔ جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کو اپنے حلقوں میں مزید منظم ہونا پڑے گا۔

سب پارٹیاں اپنی ہیں، ملک اپنا اور صوبے اپنے ہیں، بات دشمنی اور تعصب کی نہیں، سیاسی و جمہوری بناؤ نہیں تو پارٹیاں کیا ہوئیں؟ 1973 کے آئین کی پاسداری ضروری ہے نہ کہ صدارتی نظام کا فہم۔ بین الاقوامی تناظر، جغرافیائی و نظریاتی چوک ہونے زاویہ، عالمی معاشی حالات، خارجی درجہ بندیوں اور ارتقا کے سبھی پہلوؤں کی مانگ پاکستان میں جمہوریت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سو سیاسی بالغ نظری ہی سب محاذوں کی فتح کی ضمانت ہے جس میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو اپنا جمہوری اور فکری کردار ادا کرنا ہو گا، کوئی ماضی کے میثاق جمہوریت سا۔ جہاں تک انتخابی معرکہ آرائی کی بات ہے صوبوں میں یک پارٹی بالادستی کے سبب سیاسی اتحاد کم ممکن ہیں تاہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے دریچے بہرحال کھلے ہیں، اور اس آپشن کا استعمال مفید بھی رہے گا۔ گلشن کے کاروبار کے لئے عمران خان میں بھی فکری تغیر کی ضرورت ہے، سیاست، اسمبلی، نظریہ اور فراست کا ہر کونا بناؤ کے لئے رخ رکھتا ہے بشرطیکہ حقوق ہی نہیں، فرائض بھی مدنظر رہیں۔

خیر، پنجاب میں مسلم لیگ (نواز) کی واپسی تو آسان ترین ہدف ہے۔ دیکھتے ہیں، موجودہ صورت حال اور صوبائی معاملات پر آصف علی زرداری کیا نقوش چھوڑتے ہیں! یہ صوبہ فہمی ہی مرکز میں جمہوری بہار کی ضمانت ہوا کرتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments