’میری میڈم روز مجھ پر چیختی ہیں۔۔۔‘ قطر کے شاہی محلوں میں غیر ملکی ملازمہ کی مشکل زندگی


قطر، ملازمہ،  دوحہ، فلپائن
قطر میں فیفا ورلڈ کپ جاری ہے مگر اس دوران ملک میں غیر ملکی ملازمین کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ بھی بارہا زیرِ بحث آیا ہے۔

دوحہ میں بیرون ملکوں سے آئے ملازمین نے سٹیڈیم اور ہوٹل تعمیر کیے مگر ان غیر ملکی ملازماؤں کا کیا جو قطری حکمراں طبقے کے لیے دن رات کام کرتی ہیں؟

بی بی سی نے ایسے دو لوگوں سے بات کی ہے جو قطر کے امیر گھرانوں میں کئی کئی گھنٹے کام کرتے ہیں اور ان کے لیے حالات اتنے مشکل ہیں کہ انھیں چھٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔

میں نے گلیڈیز (یہ ان کا اصل نام نہیں) سے دیر رات کو رابطہ کیا جب قطری اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان کے مالکان سو چکے تھے۔

اس آن لائن گفتگو میں انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ صبح آٹھ سے رات گیارہ بجے تک کام کرتی ہیں۔ وہ صفائی کے ساتھ ساتھ کھانا تیار کرتی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔

دن بھر کھانے کی میز پر جو کچھ بچتا ہے، وہ وہی کھاتی ہیں۔ ان کے مطابق اٹھارہ ماہ قبل نوکری شروع کرنے کے بعد سے انھیں ایک دن کی چھٹی بھی نہیں ملی۔

گلیڈیز کی عمر چالیس برس سے زیادہ ہے اور ان کا تعلق فلپائن سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میڈم پاگل ہیں۔۔۔ وہ روز مجھ پر چیختی ہیں۔‘

قطر کو فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی ملنے سے قبل غیر ملکی ملازمین کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ مالک یا کمپنی کی اجازت کے بغیر اپنی نوکری تبدیل کریں یا ملک چھوڑیں۔ کئی خلیجی ریاستوں میں اب بھی یہی قوانین ہیں۔

جب یہ میزبانی ملنے کے بعد قطر میں ملازمین کے حقوق کا جائزہ لیا گیا اور اس نے اصلاحات متعارف کرائیں تاہم ان اصلاحات پر ہمیشہ عملدرآمد نہیں ہوا۔

مثال کے طور پر گلیڈیز کے مالکان نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر رکھا ہے۔ اگر وہ جانے کی غرض سے پاسپورٹ واپسی کا مطالبہ کرتی ہیں تو انھیں مکمل یقین نہیں کہ انھیں یہ دے دیا جائے گا۔

تاہم گلیڈیز خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں۔ کم از کم انھیں فون استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی غیر ملکی ملازماؤں کو اس کی اجازت بھی نہیں۔ نہ ہی ان پر جسمانی تشدد کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ قطر میں اکثر ایسا سننے میں آتا ہے۔

ان کے لیے اسی نوکری پر قائم رہنے کی ایک دوسری وجہ بھی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ اس عمر میں ان کے لیے اس سے بہتر نوکری تلاش کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
وہ ماہانہ پندرہ سو ریال کماتی ہیں (قریب 411 امریکی ڈالر یا ایک لاکھ پاکستانی روپے)۔

یہ پیسے گھر بھیج کر وہ اپنے خاندان کی کفالت کر پاتی ہیں۔

قطر، انسانی حقوق

قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے دوران وہاں غیر ملکی ملازمین کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ ہوتا رہا ہے

قطر میں گھریلو ملازمین کے حقوق

  • قطر میں منصوبہ بندی اور اعداد و شمار سے متعلق اتھارٹی کے مطابق ملک میں سنہ 2021 تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار گھریلو ملازمین تھے
  • سال 2017 میں یہاں گھریلو ملازمین کے نئے قوانین متعارف کرائے گئے جس کے تحت دن میں زیادہ سے زیادہ دس گھنٹے کام کروایا جاسکتا ہے اور دن کے دوران وقفوں کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار چھٹی اور تنخواہ کاٹے بغیر تعطیلات دینا لازم ہے
  • سال 2020 میں گھریلو ملازمین کی کم از کم اجرت طے کی گئی اور ملازمین کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ اپنے مالکان کی اجازت کے بغیر بھی نوکری تبدیل کرسکتے ہیں یا ملک چھوڑ سکتے ہیں

تاہم انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ان قوانین پر ہمیشہ عملدرآمد نہیں ہوتا اور گھریلو ملازمین سے بہت زیادہ کام کروایا جاتا ہے، انھیں آرام کے مواقع نہیں دیے جاتے، ان سے بدسلوکی اور خود سے کم تر سمجھنے کا رویہ اب بھی جاری ہے۔

دوسرے ملکوں میں فلپائن کے ملازمین کی تنظیم مائیگرنٹ انٹرنیشنل سے وابستہ جوآین کنسپین نے کہا ہے کہ کئی گھریلو ملازمائیں خراب حالات پر خاموش رہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پیسے کمانے کو ترجیح دیتی ہیں اور بُرا رویہ برداشت کرتی رہتی ہیں۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ خلیجی ممالک میں بعض ملازمائیں کھل کر بات کرنے کے لیے پُراعتماد ہیں اور کئی بار سنگین تشدد کے خلاف آواز اٹھائی جاچکی ہے۔ ایک خاتون نے کہا تھا کہ ان کے مالکان ان کا سر ٹوائیلٹ بیسن میں دھکیلتے تھے اور غصے میں کھانا اور پانی دینے سے انکار کر دیتے تھے۔

دوسری طرف التھی (فرضی نام) قطر میں بطور ملازمہ اپنی زندگی کی ایک اچھی تصویر کھینچتی ہیں۔ وہ شاہی الثانی فیملی کے لیے کام کرتی ہیں اور اسی شاہی رہائش گاہ کے تہہ خانے سے ویڈیو کال پر بی بی سی کو انٹرویو دیتی ہیں۔

وہ خوشگوار مزاج میں بتاتی ہیں کہ فلپائن میں رہتے ہوئے وہ یہ آئی فون، کپڑے، زیورات اور جوتے خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتی تھیں جو انھیں ان کے مالکان نے دلائے ہیں۔

گلیڈیز کی طرح ان کے لیے اپنے ملک میں اتنے پیسے کمانا ممکن نہیں اور اسی لیے وہ یہاں آئی ہیں۔

ہماری گفتگو کے دوران التھی کے بڑے کواٹر میں دوسری فلپائن ملازمائیں بھی ہم سے بات کرتے ہیں اور کال میں شامل ہوجاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

فٹبال ورلڈ کپ اور قطری شیخ کے فارم ہاؤس میں ایک شام: ’ہم چاہتے ہیں دنیا قطر کے بارے میں مزید جانے‘

’یہ صرف قطر کا نہیں، تمام عربوں اور مسلمانوں کا ورلڈ کپ ہے‘

200 ڈالر کے ’لگژری‘ خیمے شائقین کے لیے ’غیر معیاری ہاسٹل‘ ثابت ہوئے

ان کے اپنے بیڈ روم اور کچن ہیں۔ یہ اہم ہے کیونکہ جن ملازماؤں کو الھتی ٹک ٹاک اور فیس بک پر کھانے اور پیسے کی بھیک مانگتے دیکھتی ہیں اور مدد کی اپیل کرتی ہیں، وہ اتنی خوش قسمت نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ہر وقت آن لائن وہ ویڈیوز دیکھتی ہیں اس لیے میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں۔ میرے لیے یہ کسی افسانوی کہانی سے کم نہیں۔‘

مگر یہاں بھی کام کے دوران سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ وہ ان شاہی گھروں کو ’سنڈریلا کے پیلس‘ کہتی ہیں جہاں اونچی چھتیں، فانوس، قدیم ڈیزائن اور سونے سے بنے نوادرات، وسیع ٹیبل اور تازہ پھولوں کے گلدستے سجے ہوتے ہیں۔

ان کے دن کا آغاز صبح ساڑھے چھ بجے ہوتا ہے جب ملازمائیں شاہی خاندان کے لیے ناشتے کی تیاری کرتی ہیں۔ خاندان کے کھانے کے بعد التھی کھاتی ہیں جس کے بعد کمروں کی صفائی شروع ہو جاتی ہے اور پھر دوپہر کے کھانے کی تیاری کا وقت ہوجاتا ہے۔

قطر، ملازمہ

التھی کہتی ہیں کہ ’یہ اتنا کام نہیں کیونکہ ہم جیسی کئی ملازمائیں ہیں۔‘

ہر ملازمہ اپنے فلیٹ میں شام تین سے چھ بجے تک آرام کرتی ہے جس کے بعد رات کے کھانے کی تیاری کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ ڈنر ختم ہوتے ہی التھی کا کام ختم ہوجاتا ہے اور وہ رہائش گاہ سے باہر بھی جاسکتی ہیں، اگر وہ چاہیں تو۔

شاہی خاندان ان کے پاسپورٹ ضبط نہیں کرتا تاہم التھی ہر روز، ہفتہ وار چھٹیوں پر بھی، کام کرتی ہیں۔ انھیں وہ چھٹی نہیں ملتی جو نئے قطری قوانین میں لازم ہے اور یہ چھٹی مالکان کے فیصلے پر منحصر ہے۔ یہی وہ قیمت ہے جو اپنے خاندان کی مالی مدد کے لیے ادا کرنا پڑتی ہے۔

میری فریس منیلا میں رہتی ہیں اور خلیجی ممالک میں اہم شخصیات کے لیے فلپائن ملازمین کا بندوبست کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک قابل رشک نوکری ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ شاہی رہائش گاہ پر کام میں ’کئی مراعات ملتی ہیں۔ یہ خاندان کھلے دل کے ہوتے ہیں۔‘ ملازماؤں کو درپیش مشکلات کے سوال پر انھوں نے اس تاثر سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ ’یہ لڑکیاں محلوں میں رہ کر موٹی ہو جاتی ہیں۔ فیملیز انھیں بہت کھلاتی پلاتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فلپائن ملازماؤں میں کئی خصوصیات ہونا ضروری ہے اگر انھیں شاہی خاندان کے لیے کام کرنا ہوا۔

’قطری شاہی خاندان کے لیے بھیجی جانے والی لڑکیوں کی عمر چوبیس سے پینتس سال ہوتی ہے اور وہ بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔‘

یہ بات کہتے ہوئے وہ مجھے سکرین پر لندن میں بی بی سی کے دفتر میں دیکھتی ہیں اور ایک لمحے کے لیے رک کر، مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ سے بھی زیادہ خوبصورت۔‘

بعد میں وہ واٹس ایپ پر پیغام میں معافی مانگتی ہیں کیونکہ ان کے بچوں کا خیال تھا کہ انھوں نے یہ کہہ کر بدتمیزی کی۔ میں نے انھی تسلی دی کہ مجھے اس بات کا بُرا نہیں لگا مگر میں انھیں یہ نہ کہہ سکی کہ کئی ملکوں میں چہرے کی خوبصورتی کی بنیاد پر کسی کو نوکری پر رکھنا غیر قانونی ہوگا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ان کا نوجوان ہونا ضروری ہے کیونکہ قطری شاہی خاندان کو باقوت اور صحتمند افراد درکار ہوتے ہیں جو محل کے مصروف ماحول میں ڈھل سکیں۔ امیدواروں کا خوبصورت ہونا ضروری ہے۔۔۔ بہت خوبصورت۔‘

ادھر جوآین کو امید ہے کہ التھی کی شاہی خاندان کے لیے کام کرنے کی کہانی درست ہوگی۔ ’ہمارے لیے یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ اب بھی قطر میں ہی ہیں اور اس قدر طاقتور خاندان کے ساتھ ان کی نوکری جاری ہے۔‘

بعض ملازمائیں شاہی خاندان کی نوکری چھوڑ کر اپنے ملک جانے کے بعد اس بارے میں شکایات کرتی رہی ہیں۔

سال 2019 میں تین برطانوی اور امریکی ملازمین (باڈی گارڈ، ذاتی ٹرینر اور ٹیوٹر) نے قطری امیر کی بہن شیخا المیاسہ بنت حمد بن خلیفہ الثانی اور ان کے شوہر پر الزام لگایا تھا کہ وہ بغیر اوور ٹائم دیے کئی کئی گھنٹے کام کرواتے ہیں۔ خاندان نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور نیو یارک میں کیے گئے مقدمات پر سفارتی استثنیٰ کو استعمال کیا تھا۔

عرب ریاستوں میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے ریجنل ڈائریکٹر روبا جرادت نے کہا ہے کہ تشدد اور ہراسانی، تحفظ اور صحت سے متعلق سہولیات کے فقفدان یا غیر مناسب رہائش جیسے مسائل پر رپورٹنگ آسان نہیں۔

آئی ایل او نے کہا کہ وہ کم سے کم اجرت، ہفتہ وار تعطیل، بیماری پر چھٹی اور اوور ٹائم کے پیسوں سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کے لیے قطر کے ساتھ کام کر رہے ہیں مگر یہ ’ایک چیلنج ہے۔‘

شاہی محل میں مقیم التھی کئی کئی گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی خوش ہیں۔

سونے سے پہلے وہ فلپائن میں اپنے بہن بھائیوں یا والدین کو میسج بھیجتی ہیں۔ اکثر انھیں گھر کی یاد آتی ہے کیونکہ کوئی محل بھی اپنے گھر کی جگہ نہیں لے سکتا۔

تاہم یہ اس گھرانے کی آمدن کا اہم ذریعہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس نوکری کے بغیر میں اپنے گھر کی کفالت نہ کر پاؤں۔‘

بی بی سی نے قطری شاہی خاندان اور لندن میں قطری سفارتخانے سے جواب مانگا ہے تاہم ان کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments