حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے عالمی کانفرنس: امیدیں اور خدشات


ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عالمی کانفرنس سی او پی 27 گزشتہ مہینے مصر میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی خاص بات لاس اینڈ ڈیمجز فنڈ کے قیام کا اعلامیہ تھا جس کے تحت غریب ملکوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ اعلامیے کے مطابق ابھی صرف اس طرح کے فنڈ کے قیام پر اتفاق ہوا ہے جبکہ ابھی اس حوالے سے کافی معاملات طی ہونا باقی ہیں جن میں اس فنڈ کے لیے رقوم کا حصول، ان رقوم کی تقسیم کا طریقہ کار اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی تشریح شامل ہیں۔

لیکن ان تمام الجھنوں کے باوجود اسے ایک امید افزا قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس کے دوران پیرس معاہدے پر عمل درآمد، فوسل فیولز کے استعمال کو محدود کرنے، عالمی بینک میں اصلاحات وغیرہ کے حوالے سے بھی بحث ہوئی لیکن کچھ ماحولیاتی کارکنوں کی نظر میں اس حوالے سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ کانفرنس میں پاکستان کے کردار خاص طور وفاقی وزیر شیری رحمان صاحبہ کی ماحولیاتی سفارتکاری کو سراہا گیا۔ اس طرح سے یہ کانفرنس تعریف اور تحفظات کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اختتام کو پہنچی

اسی تناظر میں آج کل عالمی میڈیا میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے حوالے سے کینیڈا کے شہر مونٹریل میں 7 دسمبر سے شروع ہونے والی کانفرنس سی او پی 15 کا کافی چرچا ہے۔ اس کانفرنس میں عالمی سطح پر فطری نظاموں کے تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کے عمل کو روکنے کے حوالے سے اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ کانفرنس ریو ارتھ سمٹ کے دوران قائم ہونے والے کنوینشن آن بائیولاجیکل ڈائیورسٹی کے تحت منعقد ہوتی ہے جس کی رو سے ممبر ممالک پر فطری نظاموں کے تحفظ، ان کے پائیدار استعمال، اور قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والے فوائد کی منصفانہ تقسیم کے لیے اقدامات پر زور دیا جاتا ہے

اس سال منعقد ہونے والی کانفرنس کی میزبانی کینیڈا اور چائنا مشترکہ طور پر کر رہے ہیں کیونکہ پروگرام کے مطابق یہ کانفرنس چائنا میں ہونا تھی لیکن کووڈ 19 کی وجہ سے پہلے یہ کانفرنس تاخیر کا شکار ہوئی اور اب چائنا کی زیرو کووڈ پالیسیز کی وجہ سے یہ کانفرنس کینیڈا میں منعقد ہو رہی ہے

اس کانفرنس کے حوالے سے امید کی جا رہی ہے کہ ہزاروں ماحولیاتی سائنسدانوں، کارکنوں، حکومتی شخصیات اور ماحولیاتی سفارتکاروں کے اس اجتماع میں پیرس معاہدے کی طرح حیاتیاتی رنگارنگی کے تحفظ کے لیے بھی کسی جامع روڈ میپ پر اتفاق ہو جائے گا جس کو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے حوالے سے عالمی سفارتکاری کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہوگی

ویسے جب ہم بائیو ڈائیورسٹی کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد چھوٹے سے چھوٹے بیکٹیریا سے لے کر بڑی بڑی جسامت رکھنے والے جانوروں تک نباتات اور حیوانات کی نسل کشی کے عمل کو روکنا ہوتی ہے۔ کیونکہ اسی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ پر کافی حد تک ہمارے ماحول، صحتمند زندگی اور معیشت کا دار و مدار ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیارے پر حیاتیاتی تنوع ڈائنو سارز کے خاتمے بعد سب سے بڑے بحران سے نبرد آزما ہے اور اس وقت بھی مختلف جیوت کی قریب دس لاکھ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

حیاتیاتی تنوع کی اس قدر تیزی سے تباہی کے عمل کو سائنسدان اس سیارے پر حیاتیاتی رنگا رنگی کی چھٹی بڑی تباہی یعنی سکستھ ماس ایکسٹنکشن کا نام دیتے ہیں اس حوالے سے ایلزبیتھ کولبرٹ کی ایک تصنیف دی سکستھ ماس ایکسٹنکشن۔ کے نام سے سامنے آئی ہے۔ کتاب کے حوالے سے نیشنل جیوگرافک کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ایلزبیتھ کولبرٹ کا کہنا ہے کہ جیالوجی کے اعتبار سے ہم ماحول کو بہت تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں۔ ہم سمندروں کی کیمسٹری بدل رہے ہیں جنگل کاٹ کر زمین کی سطح تبدیل کر رہے ہیں ہم زراعت کے لیے ایک ہی طرح کے پودے اگا رہے ہیں جو کہ حیاتیاتی تنوع کے لیے اچھا شگون نہیں ہے ہم حد سے زیادہ مچھلیاں مار رہے ہیں اور اسی طرح کی سرگرمیوں کی ایک طویل فہرست ہے اوپر سے بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ جب ہماری آبادی بہت زیادہ بڑھ جائے گی تو حیاتیاتی تنوع پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ بدقسمتی سے ہمیں اس سوال کا تسلی بخش جواب میسر نہیں ہے۔

اس حوالے سے مختلف تحقیقی رپورٹس سے انتہائی مایوس کن نتائج سامنے آرہے ہیں اور اسی وجہ سے سائنسدان سمجھتے ہیں کہ ہماری آج کی دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں اور حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کے دو جڑواں بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے اور حیاتیاتی رنگارنگی اور فطری نظاموں کے تحفظ کے بغیر ماحولیاتی تبدیلیوں کے بحران کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس وقت بھی فطری آماج گاہوں کے خاتمے، اجنبی اقسام کی آمد، آب او ہوا کی تبدیلیوں، ماحولیاتی آلودگی، حد سے زیادہ شکار اور دیگر اسباب کی وجہ سے جھنگلی جیوت کی تعداد ہر سال دو عشاریہ پانچ کے تناسب سے کم ہو رہی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق 1970 سے لے کر اب تک حیاتیاتی تنوع میں 69 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ دنیا بھر میں نباتات کی چالیس فیصد اقسام خطرے سے دوچار ہیں۔ پرندوں میں ہر آٹھ میں سے ایک قسم کی نسل خطرے میں ہے۔

اس حوالے سے مونٹریل میں ہونے والی اس کانفرنس کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ جس کے دوران حیاتیاتی تنوع اور فطری نظاموں کے تحفظ کے لیے 20 سے زیادہ اہداف پر بات چیت ہوگی جن میں پلاسٹک کے استعمال کا خاتمہ، زرعی ادویات کے استعمال میں کمی اور دیگر اقدامات پر مشاورت شامل ہے۔ منگل کے روز سے شروع ہونے والی اس کانفرنس کے حوالے سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں ہمیں فطرت کے رنگوں کے تحفظ کے لیے پیرس معاہدے کی طرز پر ایک قابل عمل عالمی منصوبے کا اعلان سننے کو ملے گا جو مستقبل میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے حوالے سے عالمی سفارتکاری اور عملی اقدامات لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments