کیا جنید جمشید ساری زندگی دین اور دنیا کی کشمکش کا شکار رہا؟


جنید جمشید 7 دسمبر 2016 کے روز صوبہ خیبر پختونستان کے علاقہ حویلیاں کے قریب پی آئی اے کا ایک مسافر طیارہ گرنے کے نتیجہ میں اپنی تیسری اہلیہ سمیت جاں بحق ہو گئے تھے، عزت، شہرت اور دولت سے مالا مال یہ شخص ساری زندگی تضادات کا شکار رہا وہ ساری عمر یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ وہ دین دار ہیں یہ دنیا دار؟ ساری زندگی ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ کے درمیان جھولتے رہے، اور ان کے متعلق کوئی حتمی رائے بھی قائم نہیں کی جا سکتی آ یا کہ جس شباہت یا فلسفہ پر وہ عمر کے آخری ایام تک قائم رہتے ہوئے حادثاتی طور پر لقمہ اجل بن گئے تھے کب تک اس پر قائم رہتے؟ کیونکہ ان کی زندگی کا ٹریک ریکارڈ کچھ اس قسم کی متضاد کہانی کو واضح کرتا ہے کہ وہ ایک ”کنفیوز“ قسم کے انسان تھے وہ اپنی کہانی کچھ یوں بیان کرتے تھے کہ

وہ فائٹر پائلٹ بننا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ انجینئر بننا چاہتے تھے۔

مگر وہ ان تینوں میں سے کچھ بھی نہیں بن پائے اور جو نہیں بننا چاہتے تھے وہ بن گئے یعنی گلوکار۔ اس طرح سمجھ لیں کہ وہ ایک حادثاتی گائیک تھے اور اسی فیلڈ میں بہت زیادہ نام بھی کمایا، آخر ایک دن شوبز کی چکا چوند رونقیں چھوڑ کر مذہب کی طرف راغب ہو گئے۔ کچھ عرصہ مذہب میں مگن رہنے کے بعد پھر سے شوبز میں آ گئے اور ایک فلم میں کام کرنے کے لئے داڑھی تک صاف کروا ڈالی۔ زندگی میں اس قسم کی چھپن چھپائی چلتی رہی اور اسی کشمکش میں مختلف قسم تضاداتی بیانات بھی سامنے آتے رہے مثلاً

”وہ سکون کی تلاش میں ہیں یا زندگی کا مقصد ڈھونڈنے میں مگن ہیں وغیرہ وغیرہ“

دل دل پاکستان نامی نغمہ انتہائی خوبصورت آواز میں گانے والا ایک قابل فنکار ساری زندگی اپنے ”اندرونی خلا“ کے ہاتھوں مجبور رہا اور بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ زندگی کے آخری ایام تک کسی حد تک مطمئن ہو چکے تھے مگر ایک سوال پیچھے چھوڑ گئے کہ کیا مذہب کو اختیار کر لینے کے بعد اپنے دنیاوی مشاغل خاص کر اپنے پروفیشن کا خود اپنے ہاتھوں گلا گھونٹنا ضروری ہو جاتا ہے؟ کیونکہ جن لوگوں کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے سب کچھ چھوڑ دیا تھا وہ دین کی خاطر کچھ بھی قربان نہیں کرتے بلکہ مذہب ہی ان کا منافع بخش بزنس بنا ہوتا ہے، یہ جان بوجھ کر ایک ایسے شخص کے ذہن سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں جو دنیاوی طور پر ایک کامیاب انسان ہو کیونکہ وہ مستقبل میں ان کی اے ٹی ایم مشین ثابت ہوتا ہے جس کے ذریعے سے وہ درجنوں پروفیشنلز کو حلقہ یاراں میں داخل کر کے انہیں دنیا مافیہا سے آزاد کر کے خود کے غلے بھرنے کا بندوبست کر لیتے ہیں۔

تبلیغی راہوں پر چلتے ہوئے جنید جمشید سے انجانے میں کچھ بے احتیاطی ہو گئی چند جملے ادا ہو گئے جنہیں گستاخی سمجھتے ہوئے ان پر توہین مذہب کا مقدمہ درج ہو گیا۔ انہوں نے معافی مانگی مگر ان کے ہم مذہبوں نے انہیں معاف نہیں کیا اور وہ کچھ عرصہ کے لیے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ جب واپس آئے تو اسلام آباد ائرپورٹ پر ان کے ساتھ جو توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا میں پائی جانے والی مختلف سچائیوں کو نظرانداز کر کے صرف ایک سچائی کے پیچھے چل پڑنا کتنا صحت مند قسم کا ذہنی رویہ ہو سکتا ہے وہ ایک الگ موضوع ہے مگر اسی سچائی کی بنیاد پر جذباتی ہو جانا اور اپنے آ رٹ یا پہچان کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر کے اوروں کو بھی تبلیغ کے ذریعے سے اسی کی طرف راغب کرنے کو کسی بھی طرح سے جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا۔

اپنے وجودی بحران کے نتیجے میں آپ نے جس سچائی کو دریافت کیا ہے اسی بنیاد پر دوسروں کو بھی مجبور کرنا کوئی دانشمندانہ یا مناسب رویہ نہیں ہوتا۔ آخر یہ ایگزیسٹینشل کرائسز یا وجودی بحران کیا ہوتا ہے؟ آخر کیا وجہ تھی کہ جنید جمشید نے خود اپنے ہاتھوں اپنے فن و آ رٹ کو قربان کر دیا اور مذہب کی طرف راغب ہو گئے؟ اکثر جو لوگ وجودی بحران کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنی دنیاوی زندگی میں کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہوتے ہیں پیسہ، شہرت اور وسیع تعلقات کے مالک ہوتے ہیں مگر ان کے اندر ایک ”خلا“ ہوتا ہے جسے ”بے معنویت“ کہا جا سکتا ہے جیسے جیسے وہ دنیا وی شہرتوں کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے ہیں جوں جوں ان کا یہ خلا گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔

معنویت کا یہ فقدان ایسے شخص کو الجھائے رکھتا ہے اور یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہو تا ہے اور اس بحران کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ زندگی کے مختلف پڑاؤ میں مثلاً طویل بیماری کے لمحات میں، بڑھاپے میں یا اپنے کسی قریبی کے دنیا سے چلے جانے جیسے مراحل میں سے گزرنے کے بعد بہت سے لوگ اسی قسم کے بحران کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں زندگی بیکار سی لگنے لگتی ہے۔ اس کیفیت میں اس قسم کے بنیادی سوالات کا ذہن پر غلبہ ہو جاتا ہے کہ

میں کون ہوں؟
اس کائنات میں میرا کیا کردار ہے؟
میری موجودگی کا مقصد کیا ہے؟

اگر سب کچھ ختم ہی ہو جانا ہے تو پھر اتنی جدوجہد کیوں؟ اگر اس قسم کے سوالات وجودی خلا کے نتیجہ میں کسی بھی شخص کے ذہن میں ایک ایسے معاشرے میں بیدار ہو جائیں جہاں چوائسز اور مواقعوں کی کثرت ہو اور معاشرہ غیر روایتی یا سیکولر ہوتو بڑے اذہان مختلف آ پشن یا راستوں پر غور کر کے اپنے اندر کے خلا کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اگر اس قسم کے سوالات کا سامنا ایسے معاشرے میں کرنا پڑ جائے جہاں مذہب کا راج ہو اور بالمقابل کلٹش شخصیات ہوں تو لازمی طور پر ایسا شخص مذہب کی طرف ہی چل پڑے گا کیونکہ اس کے پاس آپشن صرف مذہب کا موجود ہوتا ہے۔

انسانی حیات میں رونما ہونے والے حادثات بعض انسانوں کو اتنا توڑ دیتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے بے بس ہو جاتے ہیں بعض ان بحرانوں میں نکھر جاتے ہیں اور کچھ بکھر جاتے ہیں اور ان کو بحران کہاں ہی اس وجہ سے جاتا ہے کہ ایک انسان کا روایتی کوپنگ میکنیزم اس وجودی خلا کا وزن اٹھانے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ انسان کا داخلی کرب اس سطح پر آ جاتا ہے کہ اس کی تمام صلاحیتیں ایک طرح سے جواب دے جاتی ہیں اب اس بحرانی موڑ پہ کون اس شخص کی زندگی میں آتا ہے یا کس فلسفے سے آمنا سامنا ہوتا ہے اسی کے اثرات اس پر غالب آ جاتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ چونکہ مذہبی ہے اور اس بات کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا سامنا کسی نہ کسی طارق جمیل جیسے انسان سے ہو گا جو اپنی سحر انگیز گفتگو کے ذریعے سے مخاطب کی تنقیدی صلاحیت کو آہستہ آہستہ زیر کر دے گا پھر ایک دن یہی تنقیدی صلاحیت سحر بیانی کے آگے سرنڈر ہو جاتی ہے اور عقیدت کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اس کے بعد مخاطب کی ڈور مذہبی گرو کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے شاید جنید جمشید کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو گا؟

وہ باہر نکل کے دیکھنا چاہتا تھا مگر ہر بار انہی لوگوں سے سامنا ہو جاتا تھا جو اسے کیش کروانا چاہتے تھے۔ روایتی لوگ نفسیاتی بحران کو مذہب سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مخاطب اسی سچائی کو حتمی متصور کرتے ہوئے باقی تمام سچائیوں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور مذہبی رنگ میں ڈھل جاتا ہے، اب ایسے معاشرے میں کوئی کیا کرے جہاں ذرا سا مختلف سوچنے پر کفر کے فتوے لگنے لگیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments