”بقیہ عمران خان“


میں نے ایک اپنے ایک دیرینہ دوست سے درخواست کی کہ مجھے لاہور سے شائع ہونے والے رسالہ ”اشکال“ میں شامل عمران خان سے اپنی گفتگو کا ریکارڈ درکار ہے۔ یار مہربان نے ترقی پسند ادیب دوست جاوید آفتاب کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے کے شمارہ بابت اکتوبر، نومبر 1998 کے صفحات کے عکس مجھے یکے بعد دیگرے بھیجنے شروع کیے۔

دوست نے جانے کیوں اس عکسی ترسیل کی ترتیب کو معکوسی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سو، ریڈیو ڈوئچے ویلے، دی وائس آف جرمنی کے شکریہ کے ساتھ شائع ہونے والے اس یادگار انٹرویو جو پہلا صفحہ موصول ہوا ہے اس پر درج ہے :

”بقیہ عمران خان“

اور نیچے پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما جناب عمران خان سے میری گفتگو کے آخری اور بظاہر ”بے ضرر“ سے سوال کا جزوی جواب تحریر ہے۔ ضرر رساں تو خیر باقی سوال بھی نہ تھے مگر اہم ضرور تھے کیونکہ ان کے جوابات اس وقت کی نئی سیاسی جماعت کے سربراہ کے خیالات و جذبات اور سیاسی عزائم کی ترجمانی کرتے تھے۔ ان کی جماعت نے پہلی بار ملک کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اقتدار تو نہ ملا تھا مگر ووٹ ضرور ملے تھے۔ کہہ سکتے ہیں کہ کپتان کا پہلا اوور اچھا گیا تھا۔

مجھے اپنے اس پرانے انٹرویو کا خیال یوں آیا کہ حال ہی میں عمران خان کے حوالہ سے پاکستان میں بڑی بڑی خبریں گردش میں ہیں۔ اور میرا ذہن ان کے ابتدائی دنوں کی جانب پلٹ پلٹ جا رہا تھا مگر پھر ترکی کے ایک چینل کے لیے ان کے انٹرویو نے ایک بار پھر مجھے ان سے ملاقات کی یاد دلا دی۔ ان کا بیان کہ

” میں ایک سال تک انتخابات کے لیے انتظار کر سکتا ہوں لیکن ملک کی صورت حال اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔“

مجھے ان کے 1998 کے اس بیان کی بازگشت لگا جو انہوں نے وائس آف جرمنی کی اردو سروس کے لیے انٹرویو کے دوران میں میرے اس سوال کے جواب میں دیا تھا کہ ابھی تو انتخابات ہوئے ہیں۔ آپ اگلے انتخابات کا انتظار کیوں نہیں کر سکتے؟ ان کا کہنا تھا:

” میں تو انتظار کرلوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔“

اور پھر ان کے اس ڈر کے اظہار کے بعد بھی کتنا ہی وقت گزر گیا۔ پاکستان بھی چلتا رہا اور ان کی سیاست بھی۔ حتٰی کہ انیس سو اٹھانوے سے دو ہزار اٹھارہ آ گیا اور ایک طویل سفر کے بعد شاید وہ اپنی اس منزل کو پانے میں کام یاب ہو گئے تھے جس کا خواب ہمیشہ سے ان کی آنکھوں میں روشن تھا۔ اس کام یابی کے لیے گو کہ انہیں اپنے ہی کئی اصول قربان کرنا پڑے اور ایسے ایسے سیاست دانوں سے ہاتھ ملانا پڑا جن کے خلاف وہ ”جدوجہد“ کا دعویٰ کرتے آرہے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ کام یابی کی خوشی بھی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ ملکی اقتداری سیاست اور قوت نے یک دم کئی کروٹیں لیں۔ ان کی حکومت کی رخصتی، سیاسی اتحاد، مسلم لیگ ) ن ( کی اقتدار میں آمد، ان کا آزادی مارچ، ان پر مبینہ حملہ اور یوں سفر کا تعطل۔ مجھے یاد ہے 1998 میں جب میں ان سے ملا تھا تب بھی وہ ملک کا ڈیڑھ ماہ کا دورہ کر کے لاہور واپس آئے تھے اور اپنی پریس کانفرنس کے لیے انہوں نے مزنگ میں واقع کسان ہال کو منتخب کیا تھا۔ یہیں ان کی پریس کانفرنس کے بعد میں نے ان سے ملاقات کا وقت لیا تھا اور وقت مقررہ پر ان کے گھر زمان پارک پہنچ گیا تھا۔

انہوں نے اپنے کتے کے ساتھ دروازے پر میرا استقبال کیا تھا۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے بعد ملازم سے چائے لانے کو کہا تھا۔

کرکٹ گراؤنڈ والے عمران خان سے ایک مختلف شخصیت شلوار قمیض میں ملبوس میرے سامنے تھی۔ ان کے لہجے میں جوش و خروش تھا اگرچہ یہ جوش اس سے مختلف تھا جو ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین صاحب کے لہجہ میں تھا جن سے میری گفتگو کولون جرمنی سے لندن بذریعہ ٹیلی فون ہوئی تھی۔ یہ ان کی جلاوطنی کے بعد غالباً پہلا انٹرویو تھا۔ اس کی تفصیل پھر کبھی۔

بہرحال عمران خان صاحب سے گفتگو میں نے چائے آنے سے پہلے ہی شروع کردی تھی۔ میرے سوالات کے تفصیلی جواب یعنی انٹرویو کا مکمل متن آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ سردست چیدہ چیدہ باتوں پر ہی اکتفا کرنا ہو گا۔

ان کی عوامی رابطہ مہم کے بارے میں ابتدائی سوال کے بعد میں نے ان سے پوچھا تھا کہ اس وقت کی نواز شریف حکومت پر ان کا سب سے بڑا اعتراض کیا ہے تو ان کا کہنا تھا: ”موجودہ حکومت نے احتساب نہیں کیا۔“

میں نے کہا کہ حکومت نے تو احتساب کا عمل شروع کر رکھا ہے اور بے نظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری بھی اس کی زد میں ہیں تو خان صاحب نے کہا: ”دراصل حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے کیونکہ نواز شریف نے اپنے بزنس پارٹنر سیف الرحمٰن کو احتساب سیل کا سربراہ مقرر کر رکھا ہے۔“

میں ان دنوں افغانستان میں امریکی میزائل گرائے جانے اور مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین کے استعمال کے بارے میں ان کی رائے جاننا چاہی تو انہوں نے کہا: ”حکومت کو ساری چیز کا علم تھا۔ امریکی میزائل پاکستان کے اوپر سے گئے۔ یہ لوگ اپنی کرسی بچانے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آگر آپ وزیراعظم ہوتے تو ایسی صورت میں کیا کرتے تو کہنے لگے کہ میں امریکا کو پاکستان کی فضائی حدود ہرگز استعمال نہ کرنے دیتا۔ اقوام متحدہ سے رابطہ کرتا اور براہ راست طالبان حکومت سے رابطہ کرتا اور انھیں ثبوت دکھاتا۔ طالبان نے خود امریکا سے کہا ہے کہ اگر آپ ثبوت دیں تو ہم اسامہ بن لادن کو خود آپ کے حوالے کر دیں گے۔

میں نے پندرہویں آئینی ترمیم اور نفاذ شریعت کے حکومتی اقدام پر تبصرہ چاہا تو بولے : ”یہ شریعت نہیں، شرارت ہے۔ کیونکہ شریعت میں بنیادی چیز انصاف ہے جو ان حکمرانوں سے متوقع نہیں۔“

میں نے افغانستان میں شریعت کے نفاذ کی طالبان کوششوں کے بارے میں اور طالبان کی حمایت اور مخالفت کے حوالے سے پوچھا تو ان کا جواب تھا: ”طالبان رد عمل کی پیداوار ہیں۔ انھیں جنگ میں تو کوئی ہرا نہیں سکتا۔ انھیں گائیڈ کرنا چاہیے۔ وہ سمجھ جائیں گے۔ میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان کے لوگ تو ترس رہے ہیں کہ طالبان کی طرح کوئی ان کے گھر بار، ان کی دولت کی حفاظت کرے۔

میں نے کہا طالبان بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کرتے خاص کر عورتوں کے ساتھ ان کا سلوک کیسے جائز ہے؟ خان صاحب نے ذرا سے توقف کے بعد کہا کہ عورتوں کو بند کر دینا غلط ہے۔ یہ اسلام نہیں۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ آہستہ آہستہ وہ سب سیکھ جائیں گے۔

پھر میں نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے سوال کیا جو ان کے نزدیک متنازع ہے اور اتفاق رائے کے بغیر نہیں بن سکتا اور اتفاق رائے کے لیے ایک نئی حکومت درکار ہوگی۔

میں نے کہا آپ کے انداز اور بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ آپ تبدیلی کے لیے ماورائے آئین اقدام کے بھی قائل ہیں تو انہوں نے جوش سے کہا کہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ آئین عوام کے لیے بنتا ہے عوام آئین کے لیے نہیں۔ اور ویسے بھی یہ ایک ربر اسٹیمپ پارلیمنٹ ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آئین کو بچانا ضروری ہے یا پاکستان کو؟ پاکستان ہی نہیں رہتا تو آئین کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔

میں نے کہا کہ آپ کی ان باتوں سے کیا فوجی آمریت کی راہ نہیں ہموار ہوتی؟ کہنے لگے : ”بالکل نہیں۔ یہ کام سپریم کورٹ بھی کر سکتی ہے۔ ایک اصلاحی حکومت قائم کردے جس کا صرف دو نکاتی ایجنڈا ہو ایک احتساب اور دوسرا اداروں کی اصلاح۔ ٹیکنو کریٹس یا ایریا ایکسپرٹس کو اس میں شامل کیا جائے۔

میں نے کہا کہ ایسا کرنے سے بھی تحریک انصاف تو برسراقتدار آتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ آپ کی جماعت کے پاس ووٹ بنک نہیں ہے۔ اس پر عمران خان نے گزشتہ انتخابات میں اپنی جماعت کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت واحد سیاسی قوت کے طور پر ابھرے گی۔

آج اس انٹرویو کے بارے میں سوچتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک طویل سفر کے بعد ملنے والے اقتدار کے بعد کیا عمران خان وہ کچھ کرپائے جس کے کرنے کا وہ عزم رکھتے تھے؟ یعنی عام آدمی کو انصاف کی فراہمی، قوم کی عزت نفس، عالمی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات، قرضوں سے چھٹکارا، بدعنوان عناصر کا احتساب اور طالبان کی سیاسی تعلیم و تربیت، ملک کا معاشی استحکام اور۔ ۔ ۔ اور؟

میں سوچتا ہوں۔ عمران خان اب کہاں کھڑے ہیں؟ وقت اور حالات کے گردباد میں کیا کوئی انھیں صاف طور سے دیکھ سکتا ہے؟ کم از کم میں تو نہیں دیکھ پا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments