سنیارٹی کو ترجیح


27 نومبر 2016 کو راقم الحروف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کے وقت ”روانگی اور آمد“ کی عنوان سے تجزیہ تحریر کرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ ”نئے آرمی چیف کے واسطے جنرل راحیل شریف کی با عزت ریٹائرمنٹ ایک نوشتہ دیوار ہے کہ آئین کے احترام کرنے سے ہی محترم ہوا جا سکتا ہے“ اسی تجزیہ میں جنرل کیانی کی ایکسٹینشن لینے کا ذکر کیا تھا کہ وہ انیس سو تہتر کے آئین کے نفاذ کے بعد جمہوری دور میں توسیع لینے والے پہلے جنرل تھے۔

ان دونوں امور سے بچنے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مگر پھر کیا ہوا ایک تاریخ بن چکی ہے، افسوس ناک تاریخ۔ 9 نومبر 2022 کو اپنے کالم ”تدبر و تحمل کی ضرورت“ میں جاپان کی ایک سفارتی تقریب کا احوال بیان کرتے ہوئے بالخصوص جنرل عاصم منیر کا ذکر کیا تھا کیونکہ سنیارٹی کو ترجیح دینے کی بازگشت اس قدر سنی جا رہی تھی کہ یقینی تھا کہ وہی آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوں گے۔ اس تقریب میں تو میں نے ان کو گڈ لک کہا تھا مگر اب وہ منصب پر فائز ہو گئے ہیں تو ان سے بھی یہی گزارش کروں گا کہ وہ آئین کے احترام اور مستقبل میں توسیع سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔

اس تقریب میں ان کا نام لے کر ذکر کیا تھا کہ لوگ بہت محبت کا اظہار کر رہے تھے، سیلفیاں لے رہے تھے، خدا کرے کہ یہ محبت ان کی ریٹائرمنٹ تک قائم رہے۔ محبت، احترام قول و فعل کی یکسانیت سے قائم رہتے ہیں۔ معروف لبنانی مصنف خلیل جبران نے رہبانیت کے عنوان سے ایک افسانہ تحریر کیا تھا کہ ”آج سے بہت پہلے یہاں پہاڑوں میں ایک راہب کا مسکن تھا اس کی روح پاک تھی اور ضمیر روشن۔ زمین و آسمان کے تمام جاندار جوق در جوق اس کے حضور میں آتے اور وہ ان سے باتیں کرتا تھا وہ بڑے انہماک اور شوق سے اس کی باتیں سنتے اور اس کے گرد جمع رہتے یہاں تک کہ سورج چھپے وہ انہیں دعاؤں کے ساتھ جنگل کی ہوا کے سپرد کر دیتا، ایک شام جب وہ محبت کے متعلق بات چیت کر رہا تھا تو ایک شیرنی نے سر اٹھایا اور راہب سے پوچھا حضور آپ ہم سے تو محبت کی کہانیاں کہہ رہے ہیں لیکن خود آپ کی جورو کہاں ہے؟

راہب بولا میری کوئی جورو نہیں ہے۔ اس پر پرندوں، چرندوں، درندوں کے اس انبوہ میں حیرت و استعجاب کی ایک لہر دوڑ گئی، اس کی کوئی نہیں سنتا تھا سب اپنی ہی ہا نکے جاتے تھے۔ قیامت کا شور بے پناہ شور بپا تھا، یہ ہمیں محبت کرنے کا ، گھر بسانے کا درس کیوں کر دے سکتا ہے جبکہ اس نے خود نہ کبھی محبت کی نہ کبھی گھر بسایا۔ اس نفرت میں وہ اسے اکیلا چھوڑ کر چل دیے اور رات راہب چٹائی پر اوندھا پڑا روتا رہا اور اپنا سینہ پیٹتا رہا“ کوئی جتنی مرضی جاں فشانی سے محنت کر رہا ہو، نیک نیت ہو مگر اگر وہ اس بنیادی دستور کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کی پاس داری اس پر لازم ہو تو تمام اچھی اچھی باتیں، سرگرمیاں پس پشت چلی جاتی ہیں۔

فوج کسی بھی ملک کی سلامتی چاہے وہ بیرونی خطرات ہو، داخلی امن و امان کے مسائل ہو یا قدرتی آفات سے سابقہ پڑا ہو، اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری فوج کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ہمہ وقت ان تمام مسائل سے نبردآزما ہونے کی غرض سے تیار رہتی ہیں اور جانوں کی قربانی دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتی ہے مگر جیسے کہ دنیا کی دیگر افواج اپنے اس فیض کے عیوض آئین کو توڑنے، معطل کرنے یا بے توقیر کرنے کا حق نہیں رکھتی ایسا ہی رویہ وطن عزیز کی بھی ضرورت ہے۔

قوم کی اجتماعی دانش پر بھروسا رکھنا چاہیے کیونکہ صرف اپنی قوم سے مخلص ہونا کافی نہیں ہوتا، ہٹلر، مسولینی اپنی قوم، اپنے نظریات سے اتنے مخلص تھے کہ ان کے لئے جان سے گئے مگر ان کے صرف اپنی ذات کے حصار میں محدود رہنے کے سبب سے ان کا اخلاص ان کی اقوام کی تباہی کا باعث بن گیا۔ ابھی ہم نے ماضی میں دیکھا کہ سفرا سے ملاقاتوں سے لے کر کرکٹ میچوں تک کے امور میں آرمی چیف منظرعام پر رہے اس حد تک غیر ضروری طور پر متحرک رہنے کے بعد اپنی زیر سرپرستی لائی گئی حکومت کی ناکامی سے صرف ایک تقریر کے ذریعے سے بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا ہے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں سیاستدانوں کو بھی صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے صرف فوج سے ہی درست رویہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اپنی غلطیوں کو بھی سدھارنا چاہیے ہم آئی ایس آئی کے سیاسی کردار کی تو مخالفت کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کردار 1973 کے آئین کے خالق کے دور میں تفویض کیا گیا تھا۔ اس غلطی کو سدھارے اور آئی ایس آئی کے سیاسی کردار کی ادائیگی کے نوٹیفکیشن کو تو کم از کم ختم کر دیجئے۔

سول بیورو کریسی اور اس کی تعمیر کے لئے سیاستدانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں، اس پر جمہوریت کس حد تک بنیاد رکھتی ہے اس پر گفتگو پھر سہی۔ مگر اگر دوبارہ مداخلت ہونے لگی اور بات صرف زبانی کلامی حد تک ہی محدود رہی تو پھر روانہ ہوتے وقت تقریر کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ آپ جتنی مرضی اچھی گفتگو کر لیں مگر اگر گفتگو عمل سے میل نہیں کھاتی تو پھر راہب کو یاد رکھئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments