اسلام آباد: وفاقی بے وفائی کا شہر


اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت کہا جاتا ہے۔ 41 سال زندگی کے یہاں گزارنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کو وفاقی دارالحکومت کیوں کہتے ہیں۔ کیونکہ اس شہر اقتدار میں وفا کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے اس کو وفاقی دارالحکومت کہہ کر پکارا جاتا ہے لوگ وفا کی تلاش، میں اس شہر اقتدار میں آتے ہیں اور وفا کی تلاش میں ریٹائرڈ ہرٹ ہو جاتے ہیں۔ پر وفا نہیں ملتی۔ مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس شہر میں اقتدار ملتا ہے یا چھینا جاتا ہے۔ وہی اقتدار کی طرف لاتے ہیں، آئیں آپ کو صوبے سے وفا کی طرف لے کر چلتے ہیں اور پھر بے وفائی کر جاتے ہیں۔ یہاں سب کچھ ناہموار اور بے اعتبار ہے، موسم ہوں پہاڑ ہوں یا پھر یہاں کے لوگ ہوں۔

سب بے وفائی کے دامن کوہ ہیں۔ یہاں کے تو چڑیا گھر میں پرندے اور جانور تک نہیں ٹکتے اور ہم جیسے لوگ اس شہر کو آباد کرنے نکل پڑے ہیں۔

آج کل کچھ لوگ اس شہر میں امپورٹڈ کا نعرہ لگاتے ہیں جیسے کہ وہ یہاں کے مقامی ہوں یہاں ہمیشہ سے ہی نائب قاصد سے لے کر وزیر اعظم، صدر، آرمی چیف، چیف جسٹس، استاد، شاگرد، ڈاکٹر، انجینئر، دکاندار، عالم، امام مسجد، دھوبی، مزدور قصائی، فنکار سب ہی امپورٹ ہوتے ہیں کیونکہ یہاں کی کوئی مقامی پیداوار نہیں ہے،

پرند، چرند بھی دوسرے شہروں سے آتے ہیں یہاں 600 کے قریب نسلوں کے پرندے ہر سال ہجرت کر کے آتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں کوئی مستقل گھونسلہ بھی نہیں بناتے۔

جب اوپر پہاڑوں پر برف پڑتی ہے تو چیتے بھی اسلام آباد میں دیکھے جاتے ہیں۔ ہم یہاں آنے والے انسانوں کی طرح ان کی پرندوں اور درندوں کی تصاویر بناتے ہیں اور محفوظ کرلیتے ہیں، یہ دراصل تصویرستان ہے یہاں سب آتے ہیں تصویریں بنواتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ جب بھی شمالی علاقہ جات کی طرف سفر کرو تو بھیڑوں کے ریوڑ میدانی علاقوں کی طرف آرہے ہوتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسلام آباد کی طرف ہجرت کر کے آباد ہونے جا رہے ہوں۔ پوسٹنگ یہاں پر عام سنائی دیا جانے والا لفظ ہے نئی پوسٹنگ ہوئی ہے یا پھر یہاں سے پوسٹنگ ہو گئی ہے۔

سبزیاں، پھل، گوشت، تمام ضروریات زندگی دوسرے شہروں یا ممالک سے امپورٹ ہوتیں ہیں۔ یہ پاکستان کا مہنگا ترین شہر ہے پر پھر بھی بہت سے لوگ پیسے کمانے اس شہر میں مختلف بہروپ بدل کر آتے ہیں اور اس بے وفا کی شہر سے امیر ترین شخص بن کر نکل جاتے ہیں۔

آپ یہاں کسی بھی بہروپ میں آئیں سارے ملک سے پیسہ امپورٹ کریں اور خود کو ایکسپورٹ کر کے نکل جائیں۔ اس شہر میں مال و زر امپورٹ ہوتا ہے اور انسان ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ اس شہر کے بلند مقامات پر گھر بنا کر اپنے آپ کو اعلی و ارفہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر اس شہر میں لوگ چوری کرنے آتے ہیں اور پھر اپنی چوری چھپانے کے لئے چور چور کا شور مچا دیتے ہیں مزیدار بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں سب چور ہی ننگے ہیں مجھ سمیت۔

یہاں کے قبرستان بھی عارضی ہیں کسی قبرستان کی عمر شاید ہی سو سال ہو۔ پر بہت سے لوگ اس شہر کو دفن کرنے کے ساتھ ساتھ یہیں دفن ہونا چاہتے ہیں۔

اب مزے دار بات یہ ہے کہ یہاں نزدیک جو بھی شہر بے وفا سوسائٹی کے طور پر بنتا ہے اور اپنے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرنا چاہتا تو وہ اپنے نام کے آخر میں اسلام آباد لکھ لیتا ہے۔ وہ شہر گوجر خان سے اٹک تک جہاں بھی قائم ہو نام کے ساتھ اسلام آباد لکھتا ہے پر سادہ لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ خود بتا رہے ہیں کہ ہم شہر بے وفا آباد کرنے جا رہے ہیں اس لیے اس کا نام اسلام آباد ہے۔

آپ کوئی بھی سوسائٹی اٹھا لیں آخر میں اسلام آباد لکھا ہو گا۔ میری بہن نے لائلپور میں گھر خریدا کہنے لگی بھائی بالکل اسلام آباد کی طرح ہے انڈر گراؤنڈ بجلی، صاف ستھرا ہے، میں ہنس پڑا اور کہا باجی لائلپور میں ہی گھر لیں دعا کریں لائلپور بن جائے آپ کی سوسائٹی نہ کہ اسلام آباد۔ بھائی وہ کیوں۔

اسلام آباد شہر اتنا صاف ستھرا اس لیے ہے کہ یہاں کوئی کچھ چھوڑتا ہی نہیں ہے، خالی جگہ تو صاف ہی ہوتی ہے۔

اور کیا بتاتا اسلام آباد کی کہانی، صدر ایوب سے لے کر آج تک اور آنے والے وقتوں تک، یہ شہر کسی کو سمجھ نہیں آ سکے گا اور نہ ہی کوئی یہاں مستقل سکونت حاصل کر سکے گا۔ کیونکہ سب 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتے ہیں اور یہ بہر مردار ہے جو زندہ بندوں کو سموتا ہے اور مرے ہوں کو باہر پھینک دیتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو اپنے گاؤں میں رہیں۔ اس شہر کے گاؤں بھی اسلام آباد ہیں۔

آج کل اس شہر میں چوری ڈکیتی کی وارداتیں بہت شروع ہو گئی ہیں لوگ کہتے ہیں یہاں چور دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ تو بھئی یہاں مقامی ہے کون؟

سارے چور امپورٹڈ ہی ہیں، میں آپ اور ہم سب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments