سینئر صحافی ارشد شریف کی دختر کے جذبات سن کر ہر بیٹی اشکبار ہوئی، کب آنکھیں نم ہوئیں اور کب آنسوں کی جھری لگی اس کی خبر تب ہوئی جب سوگوار بیٹی کا دردیہ بیانیہ ختم ہوا، سوختہ جگر بیٹی نے اس ویڈیو میں ان لوگوں سے شکوہ کیا جو اب تو ارشد شریف کے حق میں آوازیں بلند کر رہے ہیں مگر جب وہ زندہ تھے تب انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا، چیئرمین تحریک انصاف جو اپنے آپ کو ارشد شریف کا دوست کہتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے ارشد شریف کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا، تاہم بین الاقوامی شہرت اور تعلقات ہونے کے باوجود عمران خان انہیں وہ سہولیات فراہم نہ کرسکے جو بطور دوست ان کی ذمے داری تھی کیونکہ وہ مشورہ دے رہے تھے، یہ ہی حال ہماری صحافی برداری کا ہے، یہ ہجوم آج جو سینہ کوبی کر رہا ہے مگر کہاں تھا اس وقت جب ارشد شریف نے ملک چھوڑا تھا، وہ دو ماہ تک ازخود ملک بدر رہے کیوں نہیں صحافی برداری سمیت تحریک انصاف نے اس اہم ایشو کو اٹھایا؟

سوشل میڈیا کہ ڈیجیٹل مجاہدین کہتے ہیں کہ ارشد شریف کے جنازے والے دن پنڈی میں پریس کانفرنس کا انعقاد نہیں ہونا چاہیے تھا مگر وہ یہ کہنے سے گھبراتے ہیں کہ عین اسی دن عمران خان نے اقتدار کے حصول کی خاطر لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا، یہ بات کیوں نہیں کی جاتی ہے؟ شاید یہی ذہنی غلامی ہے، صورتحال سے صاف لگتا ہے کہ یہ عناصر اپنے سیاسی مفادات اور پسند ناپسند کے تحت ارشد شریف کے قتل کو استعمال کر رہے ہیں، ورنہ کیوں ارشد شریف کی ازخود ملک بدری پر خاموش رہے، کیوں انہیں کینیا جیسے ملک جانے دیا، صحافی عمران ریاض کے مطابق ان کی عین اسی دن ارشد شریف سے بات ہوئی جب دبئی حکام نے انہیں ملک چھوڑنے کو کہا، معروف صحافی اور یوٹیوبر نے آخر جب ہی کیوں نہیں ایک ولاگ اس اہم ایشو پر کیا جبکہ ان کی تو بہت فین فالونگ ہے، کیسے عمران ریاض نے اس نکتے کو اہم نہ جاننا اور خاموشی اختیار کر گئے جبکہ جنازہ ریسیو کرنے میں سب سے آگے نظر آئے، اے آر وائی میڈیا گروپ کے سی ای او سلمان اقبال کا ارشد شریف سے بہت گہرا تعلق رہا ہے، مرحوم کی دبئی میں موجودگی سے وہ باخبر تھے، آخر وہ کیوں نہیں اپنے دوست کو وہ سہولیات دے پائے جس سے ان کی زندگی کا دفاع ممکن ہوتا جبکہ ان کا دبئی میں خاصا اثر و رسوخ ہے، کچھ منتشر سوچ کے مالک مذکورہ قتل کو لے کر وطن عزیز کے عسکری ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، سوچنے کی بات ہے اگر اس قتل کے پیچھے عسکری ادارے کی ایما ہے تو پھر کیسے اختر مینگل، منظور پشتین، عائشہ گلالئی، محمود خان اچکزئی، الطاف حسین، گل بخاری، وقاص احمد گورایہ، حامد میر، سلیم صافی، خواجہ آصف، جاوید لطیف، ماما قدیر آزادانہ گھوم رہے ہیں، کیا مضحکہ خیز بات ہے کہ ان اداروں پر الزامات لائے جا رہے ہیں جو ریاست کی بقا کے ضامن ہیں، اگر ہر ایک ریاستی اداروں پر الزام تراشی کرتا رہا تو تفتیش کون کرے گا؟ اگر یہ منفی پروپگنڈہ معمول بن جاتا ہے تو کون سا پبلک آفس ہولڈر کام کرے گا؟

مرحوم کی سوگوار والدہ نے آزادی رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے ایف آئی آر میں فوجی افسران کا ذکر کیا ہے تاہم ابتدائی دنوں کی تفتیش سے یہ ثابت ہوا کہ مرکزی ملزمان خرم اور وقار کے سلمان اقبال سے قریبی تعلقات ہیں تو سلمان اقبال کا نام ایف آئی آر میں کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا مرحوم کی والدہ پر کوئی دباؤ ہے؟ آخر کون سوگوار والدہ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے؟ ارشد شریف کے خانوادے کو فوری انصاف ملنا چاہیے مگر اس قتل کو کسی کو بھی اپنے حصول کے مقاصد کے لئے نہیں استعمال کرنا چاہیے