جاپانی فٹبال ٹیم کے کوچ کی معافی اور پاکستانی قینچی


میں جاپان اور کروشیا کا پری کوارٹر فائنل میچ دیکھ رہا تھا۔ میری خواہش تھی کہ جاپان جیت جائے۔ اضافی وقت تک دونوں ٹیموں کا میچ ایک ایک گول سے برابر تھا۔ پھر پینلٹی شوٹ آؤٹ پر کروشیا نے جاپان کو ہرا دیا اور ورلڈ کپ سے باہر کر دیا۔ لیکن جاپان نے اس ورلڈ کپ میں اسپین اور جرمنی کی بڑی ٹیموں کو شکست دی اور اپنے گروپ میں ٹاپ کیا۔ یہ کوئی کم کامیابی نہ تھی۔

کروشیا سے میچ ہارنے کے بعد جاپانی کوچ اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے سامنے جھکا کھڑا رہا۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ شکریہ ادا کر رہا ہے یا معافی مانگ رہا ہے۔ میں نے جاپان میں مقیم اپنے کزن کو پیغام بھیجا اور پوچھا کہ اس طرح جھکنے کا کیا مطلب ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ میرے اس رشتے دار کی شادی ایک جاپانی لڑکی سے ہوئی ہے اور تقریباً 15 سال سے دونوں ایک خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔

میرے کزن نے بتایا کہ یہ کوچ جس زاویہ پر جھکا ہے، یہ اپنے فینز سے معافی مانگ رہا ہے کہ ہم آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ یہ سن کر میرا جاپان کے ہارنے کا افسوس، احترام میں بدل گیا۔ میں نے یہ منظر براہ راست دیکھا تھا۔ کوچ کو جھکا ہوا کھڑا دیکھ کر مجھے اپنے بڑے بھائی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔

میرے بڑے بھائی امریکہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس پاکستان آ کر ایک بڑے ٹیکسٹائل گروپ سے منسلک ہو گئے۔ اس کمپنی نے پھر بھائی کو ترقی دے کر کولمبو، سری لنکا میں تعین کر دیا جہاں اس کمپنی کے دستانے بنتے تھے جو دنیا بھر میں بھیجے جاتے تھے۔ ترقی کرتے کرتے میرے بڑے بھائی ڈائریکٹر آپریشنز کے عہدے پر آ گئے اور مالکان کو براہ راست رپورٹ کرنے لگے۔ ملازمت اچھی تھی لیکن سفر بہت زیادہ تھا۔

ایک دفعہ تقریباً دو ہفتے تک میری بھائی سے بات نہیں ہوئی کیونکہ وہ بھی کمپنی کے لئے سفر میں تھے اور میں بھی آوارہ گردی کرنے سنگاپور اور ملیشیا کے سفر پر تھا۔ واپس آنے کے بعد میں نے خیریت کے لئے بھائی کو فون کیا تو بتایا کہ یار ابھی کل ہی ٹوکیو، جاپان سے واپس آیا ہوں۔ میں نے حیرت کا، اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو جرمنی گئے تھے کچھ مشینری خریدنے، یہ جاپان کہاں سے آ گیا۔ کہنے لگے معافی مانگنے گیا تھا۔

معافی مانگنے؟ کیا مطلب؟ میں نے استفسار کیا!

یار، ہمارے دستانے جاپان میں بھی جاتے ہیں۔ وہاں کے ایک بڑے اسٹور سے کسی جاپانی نے ہمارے دستانے خریدے لیکن جب اس نے گھر جا کر پیکنگ کھول کر دستانے پہننے کی کوشش کی تو اس کو ایک دستانے کے اندر کوئی چیز محسوس ہوئی۔ اس نے فوراً دستانے اتار کر دیکھ تو اندر سے ایک چھوٹی سی قینچی نکلی۔ اس نے فوراً واپس اسٹور جا کر اس کی شکایت کی۔ اسٹور والوں نے اس کمپنی کو رابطہ کیا جس نے ہم سے دستانے امپورٹ کیے تھے۔ اس کمپنی نے ہمارے مالکان سے رابطہ کیا۔

پھر کیا ہوا؟ میری دلچسپی اب اور بڑھ گئی تھی۔

یار، میرے پاس سیٹھ کا فون آیا اور پورا واقعہ بیان کیا۔ میں نے مالکان کو بتایا کہ کولمبو والی فیکٹری میں میٹل ڈیٹیکٹر اور اسکینر لگا ہوا ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ دھات کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی پکڑا جاتا ہے۔ یا تو کسی نے شرارت کی ہے یا کوئی دھاگہ وغیرہ کاٹتے وقت وہ قینچی غلطی سے دستانے میں پہنچ گئی۔

پھر جاپان والوں نے کوئی جرمانہ کیا یا اپنے پیسے واپس مانگے؟ میں نے بھائی سے سوال کیا۔

نہیں یار، انہوں نے مالکان سے کہا کہ ہمیں ایک آفیشل معافی یا معذرت چاہیے۔ میں نے مالکان کو کہا ہم ایک لیٹر لکھ دیتے ہیں یا ٹیلی کانفرنس کر کے معذرت کر لیتے ہیں لیکن مالکان کا جواب تھا کہ ان کی مانگ ہے کہ ٹوکیو میں جا کر معافی مانگی جائے۔ میں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے میں فیکٹری سپروائزر کو بھیج دیتا ہوں۔ مالکان نے جواب دیا نہیں ذاکر صاحب یا تو آپ جائیں گے یا میں۔ جاپانیوں نے باور کروایا ہے کہ کمپنی کا کوئی اعلی عہدیدار ہی آئے گا۔

پھر کون گیا؟ میں نے سوال کیا۔

یار، حکم حاکم مرگ مفاجات۔ مجھے ہی جانا ہڑا۔ ابھی تو میں جرمنی سے واپس آیا ہوں اور پھر دوبارہ اتنا طویل سفر۔ میں نے جاپانیوں سے یہ بھی کہا کہ اچھا میں آ رہا ہوں، ہم اگلے چھ مہینوں کی پلاننگ اور آرڈرز پر بھی بات کر لیں گے تو انہوں نے مجھے منع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ صرف ہمیں معذرت کرنے آ رہے ہیں، اگلے چھ مہینوں کی پلاننگ اور آرڈرز کے لئے آپ کو اگلے مہینے دوبارہ آنا پڑے گا۔

معافی مانگنے کا تجربہ کیسا رہا؟ میرا تجسس اپنی جگہ برقرار تھا۔

میں جب ٹوکیو پہنچا تو وہاں ہمارے مقامی آفس کے لوگوں نے جو کہ جاپانی تھے، مجھے معافی مانگنے کا طریقہ سکھایا۔ دوسرے دن میں اور مقامی آفس کا جاپانی اس کمپنی کے ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ وہاں اسٹور کا مالک اور وہ گاہک بھی موجود تھا جس نے دستانے خریدے تھے۔ میز پر کوئی چائے، کافی یا کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ میرے مقامی آفس کے جاپانی نے کھڑے ہو کر کچھ بولا، پھر میری طرف اشارہ کیا۔ مجھے پتا تھا کہ جب وہ اشارہ کرے تو مجھے صرف کھڑے ہو کر جھکنا ہے یعنی رکوع میں جانا ہے اور تقریباً تیس سیکنڈ تک اسی طرح جھکے رہنا ہے۔ میں نے یہی کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئی، مسٹر ذاکر اب آپ بیٹھ جائیں۔

آپ نے آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لئے کیا، اقدامات کیے ہیں؟ ایک جاپانی نے میرے بیٹھنے کے بعد مجھ سے سوال کیا۔ میں نے بتایا کہ ہم اب دوسرا اسکینر بھی لگانے جا رہے ہیں تاکہ اگر پہلے اسکینر سے کوئی چیز بچ نکلے تو دوسرے میں پکڑی جائے۔ اس کے علاوہ ہم نے اپنی تمام ٹریننگ کی دستاویزات کو بھی جدید اصولوں پر استوار کر دیا ہے۔ پیکنگ لائن پر موجود تمام اسٹاف کی کوچنگ اور ٹریننگ کا اس کے علاوہ اہتمام کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو۔ جاپانیوں نے اس کے بعد میرا شکریہ ادا کیا اور مجھے رخصت کر دیا۔ صرف ایک گھنٹے کی اس رسم کے لئے مجھے اتنا طویل سفر کرنا پڑا۔

اپنے بھائی سے یہ روداد سننے کے بعد میں یہ سوچنے لگا کہ اگر یہ قینچی پاکستان کے کسی اسٹور پر کسی نے خریدی ہوتی اور اس میں سے قینچی نکلی آتی تو وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا اور اس کو کوئی اضافی تحفہ سمجھ کر رکھ لیتا۔ دستانوں کے ساتھ ایک چھوٹی قینچی فری!

دو ایٹم بم کھانے کے بعد بھی جاپان اگر آج دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے تو اس پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ جاپانیوں کے نزدیک جھکنا، معافی مانگنا اور معذرت کرنا، میچ دیکھنے کے بعد اپنا کچرا خود اٹھانا، اسٹیڈیم کی صفائی کرنا، یہ سب اعلی اخلاقی رویے ہیں کیوں کہ وہ ایک زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments