سوات ایکسپریس وے خطے میں سیاحت کے فروغ کے لیے کتنی اہم ہے؟


سوات ایکسپریس وے
خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقام سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے رہائشی چالیس سالہ ضیا اللہ یہاں کاسمٹکس کی صنعت سے وابستہ ہیں۔

وہ کاسمیٹکس کی مصنوعات تیار کر کے نہ صرف مقامی سطح بلکہ پشاور، لاہور اور کراچی تک بھیجتے ہیں۔ کاروبار میں دیگر مسائل کے ساتھ ان کو بڑا مسئلہ خام مال سوات لانے اور تیار مال دوسرے شہروں تک پہنچانے کا ہے اور اس کی وجہ مینگورہ شہر اور علاقے میں ٹریفک کے مسائل اور خراب راستہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چکدرہ سے سوات تک ایکسپریس وے بن جائے تو یہاں کی مقامی آبادی کے آمدورفت کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

خیبر پختونخوا کے شمالی اضلاع سوات، دیر اور چترال سیاحت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور ہر سال لاکھوں ملکی اور غیر ملکی سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

آمد ورفت کے مسائل کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے سنہ 2016 میں ضلع نوشہرہ سے متصل موٹروے ایم ون کے انٹرچینج کرنل شیر خان سے 80 کلومیٹر سوات ایکسپریس وے کی تعمیر کا آغاز کیا اور جون 2019 میں سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 40 کلومیٹر دور ضلع لوئر دیر کے علاقے چکدرہ تک مکمل کر لیا گیا۔

دوسرے مرحلے کی تعمیری لاگت اور دورانیہ

سوات ایکسپرس وے کی تعمیر کے دوسرے مرحلے میں چکدرہ سے سوات کے علاقے فتح پور تک 80 کلومیٹر طویل شاہراہ پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

خیبرپختونخوا ہائی ویز اتھارٹی میں مذکورہ منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر انجینیئر برکت اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ سوات ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر پبلک پرائیویٹ پارنٹرشپ کے تحت کی جا رہی ہے اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے ساتھ معاہدے کے تحت منصوبے پر تعمیر کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔

سوات ایکسپریس وے

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر 36.04 ارب روپے لاگت آئے گی جس میں 12 ارب روپے نجی کمپنی خرچ کرے گی، پانچ ارب روپے صوبائی حکومت دے گے جبکہ  19 ارب روپے بینک سے قرض لیا جائے گا۔

جبکہ تعمیراتی مواد کے ریٹ بڑھنے سے صوبائی حکومت 4.3 ارب روپے آسان شرائط پر قرض فراہم کرے گی۔

ان کے مطابق اس منصوبے کو دو سال کی مدت میں مکمل کیا جائے گا۔

سوات ایکسپریس وے کی تکمیل اور ٹریفک کے لیے کھولنے کے بعد اپنے اخرجات پورے کرنے کے لیے کمپنی 25 سال کے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصول کرے گی۔

سوات ایکسپریس وے کے کیا فوائد

چکدرہ سے تعلق رکھنے والے شیر محمد خان کاشتکار ہیں اور تین ایکڑ زمین پر فصلیں اور سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔

سوات ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر کی ابتدا اُن کی زمین سے کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ نقشے میں اُن کی آدھی زمین ایکسپریس وے میں آ چکی ہے اور رواں سال وہ اس حصے پر فصل اور سبزیاں کاشت نہیں کر سکیں گے مگر وہ اپنی زمین کے رقبے کم ہونے کے باوجود خوش ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد مقامی کاشتکار منڈیوں تک باآسانی اپنا مال پہنچا سکیں گے۔

سوات ایکسپریس وے

سوات ہوٹل ایسویشن کے صدر اور قومی امن جرگے کے اہم رکن حاجی زاہد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی سوات کی عوام کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے اور وادی کے مختلف علاقوں میں سالانہ ڈھائی لاکھ سیاح آتے جن میں سے تقریباً 30 ہزار غیر ملکی ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وادی سوات میں ساڑھے چار سو ہوٹلز ہیں اور خطے میں سالانہ کروڑوں روپے کی معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ سوات ایکسپریس وے کی تکمیل کے بعد معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

لقمان خان پچھلے سات سال سے کالام میں ہوٹل چلا رہے ہیں۔ تاہم اُن کے بقول شدید بارشوں اور برف باری کے ساتھ سیلابی ریلوں کی وجہ سے رابطہ سڑک خراب ہونا یہاں کا معمول ہے جس کے وجہ سے باہر سے آنے والے سیاحوں کی تعداد بہت کم ہوجاتی ہے اور نہ صرف ہوٹل مالکان بلکہ تمام کاروباری افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایکسپریس وے کی تعمیر سے سیاحت کو فروغ ملے گا۔

اسی طرح گذشتہ 15 برس سے مینگورہ سے لاہور کے لیے بس سروس چلانے والے شاہد علی کا کہنا ہے کہ ایکسپریس وے کے پہلے مرحلے کی  تعمیر سے سفر صرف چھ گھنٹے کا ہو گیا ہے جو پہلے دس گھنٹوں پر محیط تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اب سفر نہ صرف آسان بلکہ محفوظ بھی ہو گیا ہے۔ اگر ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر مکمل ہو جائے تو اس سے بھی کم وقت میں لوگ سوات پہنچ سکیں گے۔

سوات ایکسپریس وے

مقامی آبادی کے اعتراضات

سوات ایکسیرپس وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر پر مقامی آبادی کے کچھ تحفظات اور اعتراضات بھی ہیں۔

ان میں سب سے بڑا اعترض یہ ہے کہ منصوبے کی تعمیر سے وہ زرعی زمینوں سے محروم ہو جائیں گے جبکہ بعض مقامات پر لوگوں کے گھروں کو بھی مسمار کیا جائے گا۔

سوات قومی امن جرگہ وادی میں قیام امن اور نئی سڑک کی تعمیر پر شدید مؤقف رکھتا ہے۔

جرگے کے سرگرم رکن حاجی زاہد خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر اتنا بڑا منصوبہ شروع کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ نقشے کے مطابق بغیر کسی ضرورت سڑک کو طول دیا گیا ہے جبکہ دریا کے کنارے سینکڑوں فٹ بنجر زمین کے بجائے لوگوں کی زرعی زمینوں پر یہ سڑک تعمیر کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پہلے ہی وادی سوات میں ہموار زمین بہت کم ہے اور اس منصوبے سے اس میں مزید کمی آئے گی اور لوگ روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔

حاجی زاہد خان منصوبے سے متعلق دیگر تحفظات میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی تعمیر کے بعد چکدرہ، تھانہ، بریکوٹ، مینگورہ، فضاگٹ، چار باغ کے علاقوں میں پہلے سے موجود تجارتی مراکز متاثر ہوں گے کیونکہ سیاح چکدرہ میں موٹر وے پر چڑھنے کے بعد 80 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے شین فتح پور ٹول پلازے پر اُتریں گے۔

انھوں نے کہا اس وقت سیاح مختلف بازاروں سے گزرتے ہوئے خریداری کرتے جس سے مقامی لوگوں کو روزگار میسر ہیں۔

مقامی آبادی کے اس اعتراض پر بات کرتے ہوئے اس منصوبے کے ڈائریکٹر انجنیئر برکت اللہ خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ سوات میں کم سے کم زرعی زمین کو منصوبے کے لیے استعمال کیا جائے اور اس وجہ سے ایکسپریس وے کی تعمیر کو چھ ٹریک کے بجائے چار ٹریک تک محدود رکھا گیا ہے۔ تاہم بعدازاں ضرورت کے مطابق اس میں مزید توسیع کی جا سکے گی۔

انجینیئر برکت خان کا کہنا تھا کہ اسی اعتراض کے پش نظر سوات ایکسپریس وے کو 50 سے 55 میٹر چوڑا رکھا گیا ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں تعمیر کی گئی موٹرویز اسی میٹر چوڑی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی تعمیر کے لیے مقامی افراد سے دس ہزار کنال اراضی حاصل کی جائے گی۔

دوسرے اعتراض پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر تجارت کی بہتری اور لوگوں کی سہولت کے لیے منصوبے میں کم فاصلے پر نو انٹر چینج تعمیر کیے جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ چکدرہ، شموزئی، بریکوٹ، تختہ بند، کبل، چارباغ، شیر پلم، خوازخیلہ اور آخری انٹر چینج فتخ پور میں تعمیر کیا جائے گا جس سے علاقے کے تمام تجارتی مراکز تک رسائی آسان ہو گی۔

سوات ایکسپریس وے

کیا زمین مالکان کو معاوضہ ملے گا؟

سوات کے علاقے کانجو کے 50 سالہ حمید احمد کی آمدن کا انحصار ان کی زرعی زمین پر ہے مگر اب ان کی 50 کنال زرعی اراضی میں 35 کنال سوات ایکسیرپس وے کے نقشے میں آچکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے زمین کے معاوضے کے لیے جو ریٹ مقرر کیا ہے وہ کافی کم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت ہمیں مارکیٹ ریٹ دے تاکہ ہم کہیں اور زمین خرید سکیں۔

اس ضمن میں منصوبے کے ڈائریکٹر برکت اللہ خان کا کہنا ہے کہ زمین کے معاوضے کے لیے حکومت نے 20 ارب روپے الگ رکھے ہیں۔ حکومت کے پاس پورا ریکارڈ موجود ہے اور لوگوں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔

سوات ایکسپریس وے

ماحول پر اثر

سیاحوں کی بڑی تعداد سوات کے مختلف علاقوں میں قدرتی حسن دیکھنے کے لیے آتی ہے۔ تاہم سیلاب کی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے علاقے کے قدرتی حسن کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

سوات میں ہموار زمین پہلے ہی کم ہے جبکہ سوات ایکسپریس وے کی تعمیر سے نہ صرف بڑے پیمانے پر زرعی زمینوں کو اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے بلکہ مختلف پھلدار اور جنگلی درختوں کو بھی کاٹا جائے گا۔

حکام کے مطابق منصوبے کی تعمیر کے سلسلے میں باقاعدہ طور پر ادارہ تحفظ ماحولیات سے اجازت نامے کے حصول کے لیے مراسلہ بھیج دیا گیا ہے۔

تحصیل کبل کے چیرمین فتخ اللہ کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر کے لیے دریائے سوات پر کئی مقامات پر پل تعمیر کیے جائیں گے جس سے اندیشہ ہے کہ سیلابی پانی سڑک کو نقصان پہنچائے گا یا قریبی آبادی کو متاثر کرے گا۔

برکت اللہ نے اس حوالے سے خدشات کے جواب میں کہا کہ اس منصوبے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں سڑک اور مقامی آبادی کو سیلاب سے محفوظ رکھا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments