صرف ہندسہ ہی تو بدلا ہے


ہیگل خیالاتی جدلیات کی کسوٹی پر وقت کے بہاؤ اور حالات کی رفتار کو ماپتا ہو یا مارکس مادی جدلیات کا سہارا لیتا ہو، من حیث القوم ہمیں نہ اس بات سے کوئی شغف ہے اور نہ ہی ہمارے اذہان کی کھڑکی ایسی کسی شعوری کرن کو دماغ کے کواڑوں سے رستہ دینے کو تیار ہے۔ کیونکہ وقت چاہے 1947 کا ہو یا 2022 کا، ہمارے نہ کردار بدلے ہیں نہ افکار۔ دنیا کی دو سو ریاستوں میں شاید ہم ہی وہ بدبخت سماج ہیں جس کے عمرانی معاہدے ہی میں شگاف در شگاف ہیں۔

ہمارے عمرانی معاہدے کا عملی نفاذ دیکھ کر نجانے ہابز، لوک اور روسو کی روحیں کس کس کروٹ بلکتی ہوں گی۔ اولاً تو سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار چند بورجیوژ ( نوابوں، ملکوں، راجوں، خانوں اور دولتانوں ) کی طاقت کے حصول کی خاطر دو قومی نظریے کی کھوکھلی پیداوار نے ہمارے اذہان کو مفلوج کر کے مذہب کے ٹوکے سے تہذیب و ثقافت کے چیتھڑے یوں اڑائے کہ دنیا عبرت لینے لگی اور رہی سہی کسر سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کے گٹھ جوڑ نے پوری کردی۔

شاید ہم اکیسویں صدی میں بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں مغرب چودھویں صدی کی سو سالہ جنگ سے پہلے کھڑا تھا کیونکہ یہی نقش پا چرچ کے پاپ اور بادشاہوں کے بھی تھے۔ مگر یہ کہیے کہ پھر مسلمانوں کے سچے خدا نے مغرب پر رحم کھا کر اسے وہ فکری رجحانات بخشے جن کے علوم کو حلقوم سے اتارنے کے بعد ”وہ“ انسان حقیقتاً ”اشرف المخلوقات“ بن گئے۔ سو اگر سترویں صدی کی کسی ملکہ بے نیاز نے روٹی مہنگی ہو جانے پر کیک کھانے کا مشورہ دیا تو بستیل کے قلعے سے لے کر وارسائی کے محل تک عشرت و نشاط میں دھت رہتے امراء کے سر موجود تھے۔

اٹھارہویں صدی میں کسی باہر سے آئے قابض نے ٹاؤن شیڈ ایکٹ اور سٹیمپ پیپر پر ٹیکس کاٹا تو بوسٹن گھاٹ کا پانی رات کی گہری تاریکی میں سیاہ کر دیا گیا، جنگ عظیم اول کے بعد انکل سام نے عالمی گاؤں کا نیا چودھری بننے کا خواب بننا شروع کیا تو روسی پہاڑوں کی برف اشتراکیت کی حدت سے سرخ ہونے لگی اور اکیسویں صدی میں سرمایہ داریت کا نقارہ بجا تو ڈینگ ژاؤ پنگ نے ببانگ دہل کہا کہ ”بلی کالی ہو یا سفید اسے چوہا مارنا آنا چاہیے!“

مگر ہمارے ہاں تب بھی عثمانیوں کی رعونت پر کروڑوں نفوس مسجود تھے اور آج بھی کالے گیٹ کے اس پار جمہوری طوائفوں کی لگتی بولی پر سر بسجود ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سوچنے اور بولنے کی جو چند خصلتیں بچیں تھیں اسے مذہب کے غلاف میں اوڑھ کر دور کمرے کے اونچے تختے پر رکھ دینے کو کہہ دیا گیا۔ مولوی نے سرمایہ دارانہ نظام کی دلیل میں صحابہ کی جائیدادوں کے گوشوارے پیش کیے تاکہ 33 بلین ڈالر کے عوض اللہ اور اس کے دین کے لیے جہاد کا فریضہ انجام دیا جا سکے اور اگر اس قلیل رقم سے بھی ”بنیادی ضروریات“ پوری نہ ہوں تو نت نئی تفسیروں اور تشریحوں میں الجھا کر مستقل آمدنی کا ذریعہ تلاشا جاوے سو مذہب پر کوئی سوال، گفتار اور تکرار آپ کو کسی اندھی گولی کا پختہ نشانہ بنا سکتی ہے۔

جمہوریت کی والدہ ماجدہ جناب مخفی آمریت کے کسی نین نقش پر اعتراض آپ کو پہلے گمشدہ اور پھر مسخ شدہ بنانے کو کافی ہے سو ہم نادیدہ جاہل بس نیا پاکستان کی پرانی گردانیں دہراتے ہیں، کسی شریف کو قوم کا میاں بناتے ہیں یا کسی بھٹو کی درازی عمر کی دعا مانگتے ہے۔ سوائے اس کے ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں، کیونکہ ہم مسلمانوں کا سچا خدا نہ ہم پر رحم کھاتا ہے اور نہ ہمارے حلقوم سے علوم اتار کر کسی بغاوت پر اترنے کی توفیق دیتا ہے! سو کیا 47 کیا 2022، صرف ہندسہ ہی تو بدلا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments