سنی، شیعہ، مسیحی اور احمدی مینارے


یہ 7 اور 8  دسمبر 2022 کی درمیانی رات تھی۔ رات کے دو بج چکے تھے۔ ساری دنیا سو رہی تھی۔ لیکن باغبان پورہ ضلع گوجرانوالہ کی پولیس فرض شناسی کے جذبہ سے سرشار ہو کر دو گاڑیوں میں سوار ہو کر ایک سڑک کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ایک مقام پر پہنچ کر پولیس نے سڑک کو بند کر دیا۔ اور اس مقام پر احمدیوں کی عبادت گاہ کی ایک دیوار پر دو مینارے بنے ہوئے تھے۔ احمدیوں کے مخالفین نے کچھ عرصہ قبل پولیس کو درخواست دی تھی کہ یہ مینارے گرائے جائیں کیونکہ تعزیرات پاکستان کی شقC 298  کے مطابق کوئی احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتا۔ قانون کی یہ شق احمدیوں سے مخصوص ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں

Any person of the Quadiani group or the Lahori group (who call themselves ‘Ahmadis’ or by any other name), who directly or indirectly, poses himself as a Muslim

اس کی سزا تین سال کی قید تجویز کی گئی ہے۔ شکایت درج کرانے والوں کا موقف تھا کہ کسی ،،عبادت گاہ پر مینارے کی موجودگی صرف مسلمانوں سے مخصوص ہے اور انہی کا ستحقاق ہے۔ اور ان کے نزدیک یہ اس قانون کی خلاف ورزی تھی۔ اسی رو میں بہہ کر بعض احباب کسی ،،عبادت گاہ میں محراب کی موجودگی پر بھی لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں کہ دیکھو دیکھو محراب تو مسلمانوں کی مساجد سے مخصوص ہے۔ ہم کسی اور گروہ کو کس طرح اجازت دیں کہ اپنی ،،عبادت گاہ میں محراب بنائے۔

بہرحال یہ محض اتفاق تھا کہ اگلے روز جب پنجاب پولیس کے اس کارنامے کی خبر مجھ تک پہنچی تو میں وطن عزیز سے ہزاروں میل دور لندن میں تھا۔ اور ہم لندن میں تاریخی سینٹ پال کیتیھڈرل دیکھنے کے لئے نکل رہے تھے۔ راستے میں بعض پرانے چرچ نظر آئے اور ان کے باہر میناروں کی طرز پر بنے ہوئے چرچ ٹاور بھی نظر آ رہے تھے۔ اور ان چرچوں کی محرابیں بھی نظر آ رہی تھیں۔ پونے گھنٹے کا سفر کر کے جب سینٹ پال پہنچے تو اس کے اندر داخل ہوتے ہی وہ پہلی چیز جس نے متاثر کیا وہ اس کے عظیم گنبدوں کی اندرونی سطح تھی۔ ماہر مصوروں نے اس کو نقش و نگار کے علاوہ بڑی بڑی تصویروں سے مزین کیا تھا۔ اس چرچ کے ٹاور بھی نظر آ رہے تھے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ایک سوال میرے ذہن کو پریشان کر رہا ہے۔ اگرانگلستان میں یا دنیا کسی اور ملک میں جہاں پر مسیحی احباب کی تعداد مسلمانوں سے صرف زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے، مسیحی احباب یہ مطالبہ شروع کر دیں کہ یہ ٹاور، محرابیں اور گنبد تو چرچوں کی عمارتوں کا حصہ ہیں۔ انہیں مساجد کی عمارتوں کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہمارا مذہب اسلام کے آغاز سے صدیوں قبل موجود تھا۔ تو اس کا کیا جواب ہو گا؟

تمام پاکستانی اپنے ملک کی پولیس اور انتظامیہ کے تبحر علمی سے تو واقف ہیں۔ لیکن مناسب ہوگا کہ اس ضمن میں چند سوالات کا جائزہ لیا جائے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مساجد کے ساتھ مینارے تعمیر کئے جاتے تھے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کہ جب مسلمانوں نے مساجد کے ساتھ میناروں کی تعمیر شروع کی تو اس سے قبل کیا عمارات اور ،،عبادت گاہوں کے ساتھ میناروں کی تعمیر ہوتی تھی یا مینارے مسلمانوں نے ایجاد کئے تھے۔

پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں مساجد کے ساتھ مینارے تعمیر نہیں کئے جاتے تھے۔ بعض کے نزدیک ان کا استعمال بنو امیہ کے دور میں اور بعض کے نزدیک ان کا استعمال بنو عباس کے دور میں شروع ہوا۔ اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ماہرین کے نزدیک مینارے سب سے پہلے مساجد کے ساتھ تعمیر نہیں کئے گئے تھے بلکہ مسلمانوں نے شام کے چرچوں کے عمارتوں میں مینارے دیکھے تو ان سے یہ اخذ کر کے مساجد کے ساتھ مینارے بنانے شروع کئے۔ چرچ کے ان میناروں کے لئے Steeplesکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایک ماہرکے نزدیک سب سے پہلے مصر میں فسطاط کے شہر میں مسجد کے ساتھ مینارے تعمیر کئے گئے۔

خلاصہ کلام یہ ہےکہ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ مینارے یا ٹاور، یا محرابیں یا گنبد صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں سے مخصوص ہیں۔ بلکہ یہ سب اسلام کے آغاز سے بھی قبل مختلف مذاہب کی عبادتگاہوں میں استعمال ہو رہے تھے۔ ان حقائق کی موجودگی میں کسی بھی عقیدہ کی ،،عبادت گاہ کی دیوار پر بنے ہوئے میناروں کی ساخت پر معترض اور مشتعل ہونا کوئی جواز نہیں رکھتا۔ اس قسم کے واقعات سب سے زیادہ صوبہ پنجاب میں ہو رہے ہیں۔ اگر چہ پرویز الہیٰ صاحب کی حکومت سے کسی منطقی بحث میں الجھنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے لیکن یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ جب اس قسم کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو اس کے بد اثرات صرف ملک کی سرحدوں تک محدود نہیں رہتے۔ تنگ نظر ذہن کسی بھی ملک میں سر اٹھا سکتے ہیں۔ یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ 2007 میں سویٹزرلینڈ میں دائیں بازو کی پارٹیوں اور خاص طور پر سویز پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں نے اس مہم کی پشت پناہی شروع کی کہ مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ میناروں کی تعمیر پر پابندی لگانی چاہیے۔ حکومت اس کی مخالفت کر رہی تھی۔ لیکن آخر کار اس مسئلہ پر نومبر 2009 میں ریفرنڈم کرایا گیا۔ اور 57 فیصد ووٹروں نے اس کی تائید میں ووٹ دیا کہ آیندہ سے مسلمانوں کی عبادتگاہوں کے ساتھ مینارے کی تعمیر پر پابندی ہو گی۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا، عدالتوں سے رجوع کیا یوروپی یونین سے اپیل کی گئی لیکن سب کچھ بے سود ثابت ہوا اور یہ پابندی عائد کر دی گئی۔

پاکستان میں اس قسم کے اقدامات سے جو مثال قائم ہو رہی ہے وہ اس رحجان کو اور بھی زیادہ انگیخت کرے گی۔ خاص طور پر اس پس منظر میں کہ یہ حکم کسی عدالت سے جاری نہیں کیا گیا بلکہ کچھ لوگوں کی شکایت پر پولیس نے از خود یہ قدم اٹھایا ہے۔ اور خاص طور پر پنجاب میں اس قسم کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر ان واقعات کی سختی سے حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو پوری دنیا میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ پرویز الہیٰ صاحب کو تو شاید پنجاب کے تھانوں اور اضلاع سے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہ ہو لیکن ملک کے ذی ہوش طبقوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس قسم کے واقعات کے مضمرات کو اجاگر کریں۔ یہ سلسلہ ابھی رک جائے تو بہتر ہوگا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments