یادوں کا نگر


جناب حسن البنا نے قائداعظم کے خط کے جواب میں جو عہد آفریں تحریر ارسال کی، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ”ہمارے بھائی مصطفیٰ

مومن کے ذریعے آپ کا پرخلوص پیغام موصول ہوا جس کے لیے میں آپ کا انتہائی شکرگزار ہوں۔ جہاں تک ایشیائی کانفرنس کا تعلق ہے، تو اس بارے میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ ہم اس کانفرنس کے مقاصد اور اہداف کے بارے میں بے خبر نہیں۔ ہم نے اس موقع کو بعض وجوہ سے مناسب سمجھا کہ وہاں مصر کا ایک نہایت متقی اور دین دار مسلمان شرکت کرے جو پورے ہندوستان کی اسلامی تحریک کے قائدین بالخصوص آپ سے بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل کرے تاکہ پاکستان کی مبارک تحریک سے متعلق اسلامیان مصر کے مخلصانہ جذبات اور نیک تمنائیں آپ تک پہنچائے۔

”اس کانفرنس میں ہماری شرکت کا دوسرا ہدف یہ تھا کہ اگر خدانخواستہ اس میں کوئی ایسی بات سامنے آئے جو مسلمانوں اور عالم عرب کے خلاف ہو، تو ہم اسے ناکام بنا سکیں جیسا کہ مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ بتاتے ہوئے مجھے انتہائی مسرت ہو رہی ہے کہ پوری وادی نیل بڑے خلوص دل سے آپ کی مکمل تائید کرتی اور کامل اعتماد رکھتی ہے کہ آپ کی زیر قیادت یہ جدوجہد ہندوستان کی اسلامی قوم کو آزادی سے سرفراز کرے گی۔ آپ مکمل یقین کے ساتھ آگے بڑھیے، اللہ آپ کے ساتھ ہے۔“

قیام پاکستان کے خبر سن کر شیخ حسن البنا نے پاکستان کے بانی اور گورنر جنرل قائداعظم کے نام ٹیلی گرام ارسال کیا کہ ”آج کے اس تاریخی اور ابدی حقیقت کے حامل دن کو جب دانش اور حکمت پر مبنی آپ کی قیادت میں پاکستان کی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے، میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ یہ مبارک باد وادی نیل کے سپوتوں اور بالخصوص اخوان المسلمون کے دلی جذبات کی حقیقی عکاس ہے۔“

قیام پاکستان کے بعد بھارت کے مسلمانوں پر ہندوؤں اور سکھوں نے جو بہیمانہ مظالم ڈھائے، ان پر یک جہتی کی غرض سے قائداعظم کے نام 31 ؍اگست 1947 ء کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں لکھا کہ ”مسلمانان ہند کے بہائے جانے والے خون پر اخوان المسلمون گہرے رنج و غم سے دوچار ہیں۔ ہم نے ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور گاندھی کے نام بھی فوری تار ارسال کیے ہیں اور انہیں مسلمانوں پر ہونے والی اس زیادتی کو روکنے میں غفلت برتنے کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ اس ضمن میں اپنے ہاں موجود سفارتی حلقوں تک بھی اپنے جذبات پہنچائے ہیں۔ آپ ہمیں جو بھی ہدایت کریں گے، ہم اس کی روشنی میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔“

اس سے قبل 13 ؍اگست کو انہوں نے لندن میں مسلم لیگ کے صدر علی محمد خاں کو تفصیلی خط لکھا کہ ”لندن میں اخوان المسلمون کے اخبار کے ذریعے پہنچنے والی آپ کی اپیل نے پورے مصر میں شدید اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ آپ کی اپیل آتے ہی ہم نے ان تمام سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے جن کا تذکرہ آپ نے کیا ہے۔ فوراً ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور گاندھی کو تار ارسال کیے ہیں جن میں انہیں مسلمانوں کی وحشیانہ خون ریزی کا ذمے دار قرار دیا ہے اور انہیں سمجھایا ہے کہ ہندوستان کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ مسلمانوں کا دل جیتنے کی کوشش کرے۔ لندن میں ہمارے اخبار سے آپ نے رابطہ کیا ہے، اسے قائم رکھیں تاکہ حق اور خیر کی خاطر باہمی تعاون جاری رہے۔“

18 نومبر کو امام حسن البنا نے تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما اور عالم دین جناب شبیر احمد عثمانی کو ایک مفصل خط لکھا کہ ”پاکستان کی شکل میں ایک ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست کے وجود سے ہمیں عظیم خوشی نصیب ہوئی۔ اگرچہ پاکستان کو وجود میں آتے ہی مہیب رکاوٹوں، مشکلات اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ سب کچھ اسے اسلام کے احکامات کو مضبوطی سے تھامے رکھنے سے روک نہیں سکے گا اور اسلام کا پرچم یقیناً بلند رہے گا۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ اس مبارک سفر میں پوری امت اسلامیہ اور اقوام عرب اپنی عملی کاوشوں سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اس راستے میں جو بھی قربانیاں دینا پڑیں، وہ ضرور دیں گے۔“

پاکستان کے وجود میں آنے کے تین ماہ بعد جب پاکستان کی آزمائشوں میں اضافہ ہوتا گیا، تو شیخ حسن البنا نے قائداعظم کے نام ایک خط میں لکھا کہ ”ہم وہ مبارک گھڑیاں فراموش نہیں کر سکتے جب مصر میں ہمیں آپ کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔ ہم نے جس مملکت کے قیام کے بارے میں گفتگو کی تھی، وہ پاکستان اسلامی ریاست کی صورت میں ایک حقیقت بن چکا ہے۔ اب اس وقت غارت گری اور خون ریزی کے جو افسوس ناک واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں، ان کی بازگشت مصر اور عالم عرب کے ہر باشندے اور اخوان المسلمون کے ہر رکن نے اپنے دل میں محسوس کی ہے۔ ان کٹھن لمحات میں مسلم اقوام پاکستان کے مجاہد عوام اور پاکستان کی مقدس ریاست کی مدد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔

”میں آپ کی خدمت میں اخوان المسلمون کے سیکرٹری جنرل اور اپنے مجاہد بھائی صالح عشماوی کو بھیج رہا ہوں جو ہمارے روزنامے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ الحمدللٰہ! یہ روزنامہ پاکستان اور مصر کے مابین قربت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ میں اس موقع پر یہ ذکر کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ ان دنوں ہمارے بھائی عبدالعلیم صدیقی (مولانا شاہ احمد نورانی کے والد بزرگوار) پاکستان سے ہمارے معزز مہمان کے طور پر اخوان المسلمون کے مرکز آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت اور خوش اسلوبی سے کامیاب پروگرام کیے ہیں۔“

قائداعظم کی رحلت کے بعد بھی امام حسن البنا پاکستان کے معاملات میں دلچسپی لیتے اور اسے تقویت پہنچاتے رہے۔ جب اخوان المسلمون پر مصر میں افتاد پڑی، تو سید ابوالاعلیٰ مودودی اور جماعت اسلامی اس کی پشت پر آن کھڑے ہوئے اور یوں پاکستان اور عالم اسلام کے درمیان فکری اور نظریاتی رشتے استوار ہوتے گئے۔ پاکستان آزاد ہوا، تو اس کی سفارتی حمایت سے یورپین سماج کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلم ممالک آزادی سے ہمکنار ہونے لگے اور عالم اسلام کے اتحاد کے لیے تحریکیں زور پکڑتی گئیں۔ یوں 1949 ء میں موتمر عالم اسلامی، 1962 ء میں رابطۂ عالم اسلامی اور 1969 ء میں او۔ آئی۔ سی منظم ہوئیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments