دیومالائی کردار سینٹا کلاز سے ایک اور ملاقات


آج دفتر کا مرکزی دروازہ کھولتے ہی اندر کا منظر بدلا ہوا دکھائی دیا۔ سبھی کمروں کے دروازے مختلف رنگا رنگ سجاوٹوں سے مزین تھے۔ میری دو روزہ غیرحاضری میں میری مستعد ہم۔ کار خواتین نے کیا خوب صورت انقلاب بپا کر دیا تھا دفتر کی فضا میں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ نکمے مرد کارکن کہاں تھے کہ سارا کام خواتین کو کرنا پڑا تو میں عرض کروں گا کہ وہ دو روز دفتر میں نہیں تھے یا نہیں تھا۔ کینیڈا میں نو واردگان کی مدد پر متعین اس ٹیم کا میں ہی واحد مرد رکن ہوں۔ گویا واضح اقلیت میں ہوں

(مسکراہٹ ) ۔ خیر تو دفتر کی یہ سجاوٹ دیکھ کر میرا جی خوش ہو گیا۔

مہین سبز کاغذ کے پھول بنائے گئے تھے اور آرائشی کرسمس ٹری کی شاخوں سے بھی رنگا رنگ سجاوٹیں جھول رہی تھیں، چھوٹے چھوٹے تحائف اور سنہری گھنٹیاں، جن میں سے کچھ سجاوٹیں بازار سے خرید کی گئیں تھیں اور کچھ گھروں سے لائی گئی تھیں۔ کرسمس کے مواقع پر اپنے پیاروں کی جانب سے موصول یہ ننھے ننھے تحائف گویا یادوں کی لڑیوں میں پروئے ہوئے تھے۔ گتے کے چھوٹے چھوٹے احتیاط سے تراشیدہ سفید کارڈوں پر دنیا کی مختلف زبانوں میں مبارک باد کے الفاظ لکھ کر لٹکائے ہوئے تھے۔

میں جانتا تھا ان کارڈز کے حصول کے لیے دفتر سے باہر نہ جانا پڑا ہو گا کیونکہ کتنی ہی زبانیں بولنے والے اور والیاں تو یہیں کام کرتی ہیں۔ انگریزی، فرانسیسی، اردو، ہندی، پنجابی، ہسپانوی، کروایشین، عربی، فارسی، انڈونیشیائی، سریانی، عبرانی، تامل، چینی، روسی، یوکرینی، ترک، سواحلی اور بہت سی دوسری زبانیں بولنے والے مختلف ممالک، مختلف ثقافتوں سے آئے افراد میرے ہم۔ کار ہیں جو مل کر ثقافتوں کا ایک گل دستہ سا بنائے ہوئے ہیں۔ سبھی تہوار ذوق و شوق اور شایان شان طریق پر منائے جاتے ہیں۔ مختلف ثقافتوں کے کھانوں سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے اور مختلف روایات میں یگانگت اور تنوع کی بھی پذیرائی کھلے دل سے کی جاتی ہیں۔ مجھے یہ ماحول بہت بھاتا ہے کہ وسیع القلبی کا پیامبر ہے۔

یہی وسیع القلبی اور کثیر ثقافتی حسن کینیڈا کی زندگی کی خوب صورتی کا اصل سفیر اور نمائندہ ہے۔ یوں تو لگ بھگ سارے ہی تہوار یہاں منائے جاتے ہیں مگر کرسمس پر یہ جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے جیسے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں عید کے موقع پر رونقیں عروج پر ہوتی ہیں۔

یوں دنیا کے کتنے ہی دوسرے ممالک کی طرح کینیڈا میں بھی دسمبر کا مہینہ شاپنگ کا مہینہ ہوتا ہے جس میں بنیادی طور پر کرسمس کی تیاریوں ہی کے سلسلے میں خریداری کی جاتی ہے۔ شاپنگ مالزمیں گاہکوں کا ہجوم رہتا ہے۔ سٹور پررونق رہتے ہیں۔ بچوں کی خوشی اور جوش و خروش تو واقعی قابل دید ہوتا ہے۔ ان دنوں ان کی دل چسپی کھلونوں اور وڈیو گیمز کی خریداری سے زیادہ اپنے محبوب سانتا کلاوس یا سینتا کلاز کی آمد میں ہوتی ہے۔

شہر شہر قصبہ قصبہ سینٹا پیریڈز یا جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں مقامی کاروباری ادارے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اور پھر شاپنگ مالز کے اندر سینٹا کلاز کے بیٹھنے کے لیے مخصوص مراکز کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں یہ باریش کردار آنے والے بچوں کے ساتھ تصویریں بنواتا ہے اور ان سے ان کی خواہشات جانتا رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً ”ہو، ہو، ہو“ کے نعرے بھی بلند کرتا رہتا ہے۔ اشتہاری بورڈ بھی سینٹا کو اس کی برف گاڑی میں اڑتا ہوا دکھاتے ہیں۔

اس کی برف گاڑی کو رینڈیئر کھینچتے ہیں جن کے نام بھی سب کے لیے جانے پہچانے ہیں۔ سینٹا کلاز، اس کی بیگم مسز کلاز اور اس کے رینڈیئرز اس ماحول میں کتنے حقیقی محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اصل سینٹ کلاوس کے بارے میں تاریخی حقائق سے قطع نظر مغرب میں کرسمس کے موقع پر بچوں کو گھر گھر تحائف پہنچانے والا یہ فرضی یا افسانوی کردار گویا ماحول میں جیتا جاگتا محسوس ہونے لگتا ہے۔

کہتے ہیں کہ وہ قطب شمالی کے جس علاقے میں رہائش رکھتا ہے وہ کینیڈا، امریکا، روس اور ڈنمارک کے بیچ پڑتا ہے اور فن لینڈ سمیت کئی ممالک دعویٰ کرتے ہیں کہ سینٹا کلاز ان کے ملک کا شہری ہے تاہم کینیڈا کے شہریت کے وزیر جیسن کینی نے سن دو ہزار آٹھ میں باقاعدہ رسمی اعلان کے ذریعہ سانتا کلاوس کو کینیڈا کا شہری قرار دیا اور اس کے بعد سینٹا اور اس کی بیگم کلاز کے لیے دو پاسپورٹ بھی جاری کیے گئے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ کینیڈا نے سینٹا کلاز کے لیے ایک ڈاک کا پتہ بھی وضع کر رکھا ہے جس پر دنیا کے کسی بھی خطے سے خط ارسال کیا جاسکتا ہے۔ کینیڈا پوسٹ (ڈاک کا ادارہ) رضاکاروں کی مدد سے ان تمام خطوط کے جواب تحریر کروا کے ارسال کرتا ہے۔ اگر آپ بھی سینٹا کلاز کو خط بھیجنا چاہیں تو اس کا پتہ نوٹ کر لیں۔

Santa Claus
North Pole
H0H 0H0
Canada
سینٹا کلاز سے خط و کتابت کے لیے جگہ جگہ سجے سجائے سرخ لیٹر بکس نصب کیے مل جاتے ہیں۔
ہاں یہ ذہن نشین رہے کہ خط کا جواب مسز کلاز کی جانب سے ملے گا کیونکہ سانتا تو اپنے ایلفوں کے ساتھ ان گنت تحائف کی تیاری میں جتا ہوتا ہے۔

سینٹا کلاز یا اس کے تصور سے میرا تعارف قیام جرمنی کے دوران میں ہوا تھا۔ وہاں اسے وائناختس من کہا جاتا ہے۔ جرمنی میں قیام کے دوسرے برس ایک نظم سرزد ہوئی جس کا عنوان ”سینٹا کلاز سے دوسری ملاقات“ رکھا اور یہ میرے اولین شعری مجموعہ ”ابھی اک خواب رہتا ہے“ میں بھی شامل ہے۔ اگر آپ یہ :نظم پڑھنا پسند کریں تو یہاں درج کر دیتا ہوں

سینٹا کلاز سے دوسری ملاقات
۔
یہ کس کے سال بھر کے خواب کی تعبیر
گھر کی کھڑکیوں میں جگمگاتی ہے؟
تمھاری اجنبی مسکان میں کیوں ربط خاطر ہے؟
تمھارے ہاتھ کیسی برف باری سے چمکتے ہیں؟
تمھاری سرخ جیبوں میں یہ کس کی یاد رہتی ہے؟

کہاں سے تم اچانک پھر سے سڑکوں کے کنارے
سبز دالانوں میں، دکانوں کے ان شیشہ گھروں میں لوٹ آتے ہو
مگر پھر سال بھر جیسے صنوبر کے کسی جنگل میں چھپ جاتے ہو
بولو سبز ر و شاخ صنوبر پر یہ تحفے کس کی خاطر ہیں؟
تمھارے ہاتھ سے گرتے ہوئے تھیلے میں کس دنیا کے قصے ہیں؟
کہ جن کی اک ذرا آہٹ سے بچے چونک اٹھتے ہیں

دکھاؤ کن جہانوں کی تمنا دل میں رکھتے ہو
یہ تم کیا ڈھونڈتے پھرتے ہو،
ان بے چین راتوں کے تعاقب میں
یہ تم کیا بانٹتے پھرتے ہو؟
چنگاری؟ تمنا، خواب؟
یادوں کے جلو میں جھلملاتی ریشمی باتیں؟

تم اپنی آنکھ کی مہکی شرارت کو
بجھارت کیوں بناتے ہو
یہ کیسی خواہشوں کی نرم بارش میں نہاتے ہو
کہو اس سبز رو شاخ صنوبر پر یہ تحفے کس کی خاطر ہیں
تمھاری سرخ جیبوں میں یہ کس کی یاد رہتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments