کیا چین تیانمین دوم لمحے کے قریب ہے؟


چین نے پچھلے تیس سالوں میں قابل رشک معاشی ترقی کی ہے۔ یہ ترقی ایک طرح سے عوامی بے چینی، جو تیانمین سکوائر میں ایک زبردست احتجاج کی شکل میں نظر آئی، کو دوبارہ پیدا ہونے سے روکنے کی ایک حکمت عملی تھی۔

چین کی بے مثال معاشی ترقی نے عوام میں جمہوریت، آزادی رائے کی خواہش اور اپنے حکمرانوں کو منتخب کرنے کی اجازت کو عارضی طور پر دبایا تو سہی مگر اسے مکمل ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

حالیہ بے چینی جو بظاہر کرونا وبا پر قابو پانے کے لیے سخت حکومتی اقدامات کے خلاف رد عمل دکھائی دیتی ہے مگر اس کی گہرائی میں ایک سخت گیر حکومت کے خلاف احتجاج، اظہار رائے کی آزادی اور معاشی مشکلات کے خلاف آواز بھی بلند ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کرونا وبا نے جہاں معاشی ترقی کی رفتار کو سست کیا ہے وہیں پر نوجوانوں میں بے روزگاری میں بھی خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔

چین سے بالکل درست اعداد و شمار تو ملنا مشکل ہے مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق نوجوانوں میں بے روزگاری 20 فیصد کی تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کی زیرو کرونا پالیسی کی وجہ سے ان اعداد و شمار میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

عوام تین سال سے جاری کرونا سے جڑی سخت پالیسیوں سے عاجز آ چکے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے بہت ساری رہائشی عمارتیں تقریباً جیلوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ان عمارتوں سے باہر نکلنے کے لیے کرونا ٹیسٹ لازمی ہے اور صرف منفی ٹیسٹ کی صورت میں ہی آپ باہر نکل سکتے ہیں یا مواصلات کے ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔ ان سختیوں کی وجہ سے بہت سارے شہریوں کے لیے بیرون ملک سفر تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔

چینی عوام کے غصے میں اس وقت اور اضافہ ہوتا ہے جب وہ دیگر ممالک میں کرونا کے خلاف کامیابی اور پابندیوں کا خاتمہ دیکھتے ہیں۔ فٹ بال کے عالمی کپ کے حالیہ میچوں نے بھی عوامی بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔ انہیں جب ہزاروں شائقین فٹبال میچز میں ماسک کے استعمال کے بغیر دکھائی دیتے ہیں تو اپنی حکومت کی کرونا کے خلاف بظاہر ناکامی کی وجہ سے ان کے غصے میں مزید شدت آتی ہے۔

اس سے ان کے یقین میں اضافہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومت کرونا کے خلاف مہم میں اپنے دعووں کے برعکس ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں شہروں کو مکمل طور پر بند کرنے کی حکمت عملی میں کوئی دانشمندی نظر نہیں آتی۔ موثر غیر ملکی ویکسینز کو نہ استعمال کرنے کا فیصلہ بھی عوامی بے چینی میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔

حال ہی میں شنگھائی کو تقریباً 60 دنوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں موجود خوراک کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے بھوک کا شکار ہوئے اور حکومتی مدد بہت دیر سے آئی۔ اس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے اپارٹمنٹس کی کھڑکیوں سے چیخ پکار کے ذریعے احتجاج شروع کیا۔

ان سب واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی عوام کرونا کی وجہ سے عائد شدہ سخت پابندیوں سے سخت بیزار ہو چکے ہیں اور اب انہیں اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے میں کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا۔ کچھ عرصہ قبل تک اس قسم کے اظہار رائے کو سختی سے کچل دیا جاتا تھا جس سے احتجاج میں فوری کمی آتی تھی مگر اس دفعہ صورت حال کچھ مختلف دکھائی دے رہی ہے۔

حکومتی سختیوں کے باوجود احتجاج میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے زیرو کرونا پالیسی پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے مگر چونکہ یہ مسئلہ کرونا سے زیادہ گہرا ہے اور یہ براہ راست عوام کی معاشی صورتحال اور کچھ حد تک اظہار آزادی رائے کو متاثر کر رہا ہے تو اس میں جلد کمی شاید نہ ہو سکے اور احتجاج کا سلسلہ کرونا سے ہٹ کر دوسرے زیادہ سنجیدہ سیاسی اور سماجی مسائل کی طرف منتقل ہو جائے۔

ان میں سب سے سنگین مسئلہ معیشت سے جڑا ہوا ہے جو چین میں سیاسی بحران کو تیز کرنے کا سبب بن سکتا۔ پچھلے 30 سالوں کی معاشی ترقی نے کروڑوں لوگوں کو غربت سے باہر نکالا ہے اور وہ اب ایک آسودہ زندگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ شرح ترقی میں حالیہ خطرناک کمی اور بے روزگاری میں اضافہ انہیں واپس غربت کے قریب لا سکتا ہے۔ عوام میں غربت میں واپسی کا خوف ایک شدید سیاسی بحران پیدا کر سکتا ہے جس کا مقابلہ کرنا کافی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔

چین میں معاشی ترقی کے اعداد و شمار کافی مشکوک ہوتے ہیں اور یہ اندازہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے کہ ترقی کے ثمرات تمام لوگوں تک پہنچے ہیں یا کچھ مخصوص علاقے اور پارٹی کے وفادار ہی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 2008 سے لے کر 2016 تک ترقی کی شرح کو جان بوجھ کر تقریباً دو فیصد زیادہ ظاہر کیا گیا۔ اسی طرح بچتوں کی اوسط اس دوران میں سات فیصد زیادہ دکھائی گئی۔ اس کی وجوہات میں مقامی حکومتوں کی جان بوجھ کر غلط رپورٹنگ کرنا شامل ہے مگر اس سے یہ تاثر ابھارنا مقصود ہوتا ہے کہ چینی عوام خوشحال ہو رہے ہیں اور معیشت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

موجودہ بے چینی عوام کی دنیا کے بارے میں معلومات میں اضافے کی وجہ سے مزید خطرناک صورت حال اختیار کر سکتی ہے۔ عموماً معاشی ترقی سے عام لوگوں کے ذہنوں میں اظہار رائے کی آزادی، اپنے حکمران اپنے ووٹ سے منتخب کرنے کی خواہش اور حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کرنے کی اجازت جیسی خواہشات جنم لیتی ہیں جو کہ عوام اور سخت گیر حکومت میں فاصلے بڑھا دیتا ہے۔

چین میں ایک پارٹی نظام کی وجہ سے سے حکومتی تبدیلیوں میں صرف حکمران اشرافیہ کا ہاتھ ہے اور اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ چین میں مزید معاشی ترقی سے سیاسی آزادیوں جیسی خواہشات میں اضافہ ہو گا اور چینی حکومت کو اس مسئلے سے احتیاط سے نمٹنے کی ضرورت ہوگی۔ اگر حکومت نے ان مطالبات کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی تو تیانمن سکوائر کے سانحے کو دوبارہ رونما ہونے سے نہیں روکا جا سکے گا۔

موجودہ بحران سے نمٹنے کا ایک موثر طریقہ چینی عوام کو مزید سیاسی اور سماجی آزادی دے کر اس سیلاب کے خلاف بند باندھا جا سکتا ہے۔ چینی حکمران طبقے کو سوویت یونین کے معاشی اور سیاسی آزاد خیالی کے تجربے کی تاریخ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

سوویت یونین میں مختلف قومیتوں کو مصنوعی طور پر طاقت کے ذریعے اکٹھا کیا گیا تھا جبکہ چینی ایک قوم ہیں اور سیاسی اور سماجی آزادیاں اسے اور قوت دیں گی وگرنہ چین کو اگر آج نہیں تو کل ایک بڑے سیاسی طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا جو نہ صرف چین کی سیاسی اور اقتصادی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو گا بلکہ عالمی معیشت اور امن کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments