سقوط ڈھاکہ: ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا


(سقوط ڈھاکہ کے ایک عینی شاہد کی داستان)
آج سولہ دسمبر ہے یعنی پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک دن جب بننے کے چوبیس سال ملک دو لخت ہوا۔ بنگلہ دیش کے دورے سے واپسی کے بعد فیض صاحب اپنی نظم ”ڈھاکہ سے واپسی پہ“ حزن و ملال کی کیفیت میں لکھا۔

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

اس نظم کو دکھ اور تاسف کے ساتھ پڑھتے ہوئے اکثر کے دلوں میں ہوک کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر پاکستان کے مشرقی حصے میں کیا کچھ ہوا کہ جو سقوط ڈھاکہ اور دو لخت پاکستان کا محرک بنا۔ کیا پاکستان کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا تھا۔ گو ہمارے سامنے وہ ٹھوس سیاسی، لسانی، سماجی، جغرافیائی اور ثقافتی عوامل ہیں جو اس سانحہ کے ذمہ دار اور جو ہمارے ملک کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ انیس سو ستر کے الیکشن کے بعد اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے مغربی پاکستان میں اکثریت سے جیتنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر سے اخذ کردہ اطہر عباس کے جملے ”تم ادھر اور ہم ادھر“ کے پھینکے جال میں قوم کچھ اس طرح الجھی کہ اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ یہ غیر منصفانہ جملہ اور پھر منتقلی اقتدار کے اجلاس کا بار بار التوا، برسوں سے پنپنے والے نفاق اور نفرت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔

مگر واقعہ یہ ہے کہ اس سانحہ سے پہلے اور بعد کے حالات پہ پاکستان کی خبر رساں ایجنسیوں، ریڈیو اور ٹی وی پہ وہاں کی اس وقت کی صورتحال پہ کم وبیش سناٹا طاری رہا۔ قتل و غارت گری کا سیلاب لاکھوں انسانوں کو بہا لے گیا۔ ہتھیار ڈالنے والی فوج کے علاوہ بہت سے شہری بھارت کی چھاؤنیوں میں قید ہوئے اور جو بنگلہ دیش میں رہ گئے وہ غیر ملکی شہری بن کر آج تک پناہ گزین کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں پڑے ہیں۔ آج آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی ہم مکمل طور پہ ان ہجرت کرنے والوں سے بھی شواہد نہ جمع کرسکے جو اس سانحہ کے عینی شواہد تھے۔ تاہم اس حوالے سے میں آج کچھ گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔

عرصہ بیتا ہمارے پڑوس میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے اور اردو بولنے والا بہاری گھرانا آ کے بسا۔ مالک مکان نے اپنے گھر کے آدھے اور مختصر حصہ میں چھ بچوں اور میاں بیوی کو کرائے پہ رہنے کی جگہ دے دی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان سے لٹا پٹا یہ بہاری گھرانا جانے کن کن راستوں سے گزرتا اور قیام کرتا ہوا پاکستان پہنچا تھا۔ مشرقی پاکستان میں سکون سے رہنے والے اس گھرانے پہ 1971 ء میں وہی افتاد پڑی تھی جو وہاں رہنے والے لاکھوں لوگوں پہ پڑی۔

اسی گھر کے ایک نوجوان نے انتہائی کسمپرسی اور زبوں حالی کے عالم میں بھی سخت محنت کی اور میڈیکل میں داخلہ حاصل کر لیا۔ آج وہی نوجوان پاکستان کا کامیاب ترین ڈاکٹر اور سرجن ہیں۔ ان سے گفتگو کا موقعہ ملا تو اکیاون سال پہلے ہونے والے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کا آنکھوں دیکھا حال سننے کا موقع ملا جو من و عن پیش خدمت ہے۔

”میرا نام علی سجاد (فرضی نام) ہے۔ میرا تعلق شمالی بنگال کے علاقہ سید پور سے تھا جہاں ریلوے کی سب سے بڑی ورکشاپ واقع ہے۔ اس علاقے میں اردو بولنے والے بہاریوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ جہاں 23 مارچ کو ہمیشہ بڑے جوش و خروش سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا تھا۔ لیکن 1971 ء کو گیارہ مارچ سے سنتاہار اور کئی علاقوں سے ہنگاموں کی خبریں آ رہی تھیں۔ ہمارے علاقے میں ایک امن کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جہاں کے پولیس اسٹیشن کے عملہ نے جو بنگالی تھے فیصلہ کیا کہ علاقے کے رہنے والے ہتھیار جمع کرا دیں اور کہا کہ ‘آپ کی حفاظت ہم کریں گے۔’ اس پر بی ڈی ممبران اور اردو بولنے والوں نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا کہ ‘ہمارے ہتھیار کا امن میں خلل سے کیا تعلق؟ ‘ یہ وہ علاقہ تھا کہ جہاں اس سال 23 مارچ 1971 ءکو بڑے جوش و خروش سے بنگلہ دیش کے بجائے پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔

اس وقت تک ہمارے شہر سے وہاں رہنے والے بنگالی جا چکے تھے جو اپنے تئیں ایک خطرے کی علامت تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے 23 مارچ کو رات کے آٹھ بجے جب ہم سونے چلے گئے تو ساڑھے دس بجے رات کوایک دم سے آنکھ کھل گئی۔ ایسا لگا جسے فضا میں بھنبھناہٹ سی ہے۔ یہ دراصل ”جوائے بنگلہ“ کے نعرے تھے۔ میری عمر اس وقت تیرہ برس کی تھی۔ میرا ایک گود کی عمر کا بھائی تھا۔ مجھ سے چھوٹی ایک بہن اور تین اور بڑے بہن بھائی تھے۔

سب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ لاکھوں بنگالیوں نے سید پور کو چاروں طرف سے محاصرے میں لے لیا ہے۔

صورتحال کو دیکھتے ہوئے تمام عورتوں اور بچوں کو ہر محلے میں ایک جگہ جمع کر دیا۔ ہمارے پاس گنے چنے ہتھیار یعنی چند رائفلز اور پستول تھیں۔ حکمت عملی کے مطابق بڑی عمروں کے مرد بلم لے کر محلے کی پہرے داری کر رہے تھے اور نوجوانوں کو ساتھ ملا کے پاکستان زندہ باد کے زور دار آواز میں نعرے لگائے جاتے تاکہ بنگالیوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ ہم لوگوں کو کمک پہنچ رہی ہے۔

رات ہی کو کھیت کے اطراف چھت کی منڈیر پہ ہم کم عمر لڑکوں نے بانس کے پتلے ٹکڑے کاٹ کے بندوق کی نال کی صورت لائن سے رکھ دیے جن کو دور سے دیکھو تو ایسا لگتا تھا جیسے رائفل کی نالیں۔ صبح ہوتے ہوتے ہم سبھوں نے کدال سے اس پل کو کاٹ کے گرا دیا جس سے بنگالی آتے تھے۔

لیکن صبح کو بنگالی گولا ہاٹ کی طرف سے سے داخل ہوئے جبکہ ہم سب نیو مستری پاڑا کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ تلوار، برچھی، بلم اور گولیاں بھی استعمال ہوئیں۔ وہاں سے تیر چلائے جاتے اور گن بھی استعمال ہوتی۔ ہماری طرف سے ایک لڑکا شہید ہوا تھا۔ یہ سب تیئس اور چوبیس مارچ کو ہوا اور یہ سلسلہ بعد تک جاری رہا۔

25 مارچ کی رات ساڑھے دس بجے پاکستانی فوج آئی۔ ہمارے سید پور میں فوجی چھاؤنی تھی۔ لیکن ایسٹ پاکستان رجمنٹ نے بغاوت کردی تھی لہٰذا حالات بگڑتے گئے۔ نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ رسد بند ہونے کی صورت میں فوجیوں کی مدد سید پور کے شہری کر رہے تھے ہم انہیں کھانا پہنچاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں ایک کیپٹن فدا حسین تھے جو توپ کے گولے سے شہید ہو گئے تھے۔ جبھی نیو مستی پاڑا کا نام بعد میں کیپٹن فدا حسین کالونی ہو گیا۔

ستائیس مارچ کو خبر آئی کہ پورے منظم انداز میں بغاوت ہو چکی ہے۔ دیناج پور میں پچیس ہزار کی آبادی میں سے ننانوے اعشاریہ نو غیر بنگالیوں کو مار دیا گیا۔

وہیں سے گزرتے ہوئے ایک عبرتناک منظر دیکھا۔ تالاب کے کنارے ایک بچہ پڑا تھا جس کی زبان میں سوئیاں لگائیں ہوئیں تھیں اور اس کے ماں کی گردن کٹی ہوئی تھی مگر وہ سانس لے رہی تھی۔ پاربتی پور لاشوں سے آٹا پڑا تھا۔ ڈھاکہ کے قریب میمن سنگھ میں سڑتی ہوئی لاشوں کے ڈھیر تھے۔ وہاں کے کتوں کے منہ کو انسانی خون اور گوشت کا مزا لگ گیا تھا۔ کنچن ندی جہاں سارے سال پانی بہتا تھا اس کا پانی لاشوں کے ڈھیر کی وجہ سے رک گیا تھا۔

اُدھر ٹکا خان کا مشہور جملہ کہ غداروں کے سرزمین سے غداروں کو پاک کرنا ہے، اِدھر یہ عالم کی مکتی باہنی والے اگر پل اڑا دیتے تو کہتے پاکستانی فوج نے کیا۔ اور اکثر مکتی باہنی کے نام پہ انڈین آرمی ہوتی۔ مقامی بنگالی مکتی باہنی کو راستہ اور پناہ دیتی۔ پاکستان کا ساتھ دینے والے بنگالیوں کو بدظن کرنے کے لیے ان کے گھروں میں پاکستانی فوجیوں کا لباس پہن کے لوٹ مار کی جاتی۔

جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو بہار رجمنٹ کو ہمارے علاقہ میں داخل کیا گیا۔ اس کے برگیڈیر نے جس کے پاس کلاشنکوف تھی مجھ سے بھی ہاتھ ملایا۔ اس نے کہا ”انہوں نے خالی ہاتھ بنگالیوں کی ایسی کی تیسی لگا سی۔ یہ ہمارے لوگ ہیں ہمیں قابو کر لیا۔“ چھاؤنی سے ہتھیار لے لیے گئے تھے۔ مجھے آج بھی ایک شخص کا جملہ یاد آتا ہے۔ جو اس نے شیخ مجیب، اندرا گاندھی اور بھٹو کے متعلق کہا تھا۔ ”خیر ہماری نسلیں تو برباد ہو جائیں گی لیکن ان کی نسلیں بھی ایسے ہی ختم ہوں گی کہ دنیا دیکھے گی۔“

اور واقعی دنیا نے دیکھا شیخ مجیب کی لاش تین دن اس کے گھر کر باہر سڑتی رہی اور ماسوا ایک بیٹی کے پورے خاندان کو قتل کیا گیا۔ بھٹو کو پھانسی لگی اور سوائے ایک اولاد کے پورا گھرانا مارا گیا اور ایسا ہی اندرا گاندھی کے ساتھ بھی ہوا۔

ہم سقوط ڈھاکہ کی بعد نکلے، راجشاہی مرشد آباد سے گزرے۔ چار مرتبہ تو امی اور ابا ذبح ہوتے ہوتے بچے۔ ہم ہر خطرے سے دعائیں پڑھتے ہوئے نکل جاتے۔ میں نے پاکستان آ کر یہاں سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی۔
مجھے ملک سے باہر ملازمت کے بہت مواقع ملے مگر مجھے پاکستان سے اتنی محبت ہے کہ میں باہر جانے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments