چھوٹے چھوٹے سیاستدان


جنرل باجوہ کا دور تاریخ میں سیاہ ترین دور کے طور پر جانا جائے گا۔ جب فوج سے عوام کا رومانس تقریباً تمام ہوا۔ آج خود کو سمجھاتے ہیں کہ ”فوج“ ایک شخص نہیں ہے تو پھر سرحدوں پہ قربان ہونے والے بیٹوں سے شکوہ کیوں؟ لیکن دل ہے کہ مان ہی نہیں رہا۔ وہ یہی کہتا جا رہا ہے کہ آخر کو طاقت ”اسی“ ایک شخص کی ہے۔ جب تک اس کی مٹھی سے آزاد نہیں ہوں گے، شاید دل مانے گا بھی نہیں۔

جو بھی تھا، ڈھکا چھپا تھا، پردے میں تھا۔ اسے بے پردہ کیے جانے کا سہرا جنرل باجوہ کو ہی تو جاتا ہے۔ آزادی مانگنے والوں کی زبانیں بند کر دی گئی ہیں، اس کا سہرا بھی جنرل باجوہ کے ہی سر ہے۔ پاکستان معاشی طور پہ تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ نام نہاد جمہوریت کا سر عام گلہ گھونٹا گیا ہے۔ اعلان عام کیا گیا ہے کہ عوام حقیر ہے اور حقیر صرف فقیر ہو سکتا ہے۔

اس کے باوجود بھی مہنگائی ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ بجلی کے بل ہمارا مسئلہ نہیں ہیں۔ اگر ہم اب بھی روز پیٹ بھر کر آرام دہ بستروں میں سوتے ہیں تو جان لیجیے کہ مہنگائی آپ کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ مہنگائی کی بابت تو اس سے پوچھیے جو اس کے ہاتھوں ایک رات بھوکا سویا۔ اس کے بچے بھوک سوئے۔ وہ بتائے گا کہ کیا بیتی۔

ہمارا مسئلہ اور ہے۔ ہم پڑھے لکھے طبقے کو یہ شعور آ گیا ہے کہ ہم غلامی سے آزاد ہوئے تھے۔ اب ہمیں واپس غلامی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ہم پر فیصلے باہر سے مسلط کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ سب کس کی ایماء پر ہوا، اس کا جواب بڑا تکلیف دہ تھا۔ اب اس ”رومانس“ کو لے کر ہم کہاں جاتے صاحب!

جنہیں ماتھے کا جھومر کہا تھا، جنہیں سر کا تاج کہا تھا۔ ’محبوب‘ جب محبت کا جواب محبت سے نا دے، تب اتنی تکلیف نہیں ہوتی۔ تکلیف تو تب ہوتی ہے جب وہ آپ کی محبت کو جوتے کی نوک پہ رکھ کے ٹھوکر مار دے۔ آنسوؤں سے روئے ہیں صاحب۔ بڑے گھاؤ لگائے ہیں اس محبت نے۔ عقل ٹھکانے لگا دی ہے اس محبت نے۔ بڑی مہنگی پڑی ہے ہمیں یہ محبت۔ ”ارشد“ اسی محبت کے ہاتھوں شہید ہوا نا! آزادی کی اس جنگ میں ارشد تو چلا گیا لیکن ہم جیسے گونگوں کے ہاتھوں میں قلم پکڑا گیا۔

ہم اس جنگ کو جاری رکھیں گے اپنے اس قلم کے ذریعے۔ آپ اپنی تلوار آزمائیے، ہم اپنا قلم آزمائیں گے۔ جنہیں سیاست کی ا، ب نہیں آتی تھی، وہ بھی سیاست میں حصہ لیں گے۔ ہم بھی سیاسی بنیں گے۔ ہم اب ”خان“ سے محبت کریں گے اور علی الاعلان کریں گے۔ کیونکہ وہ ہم سے، ہم سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ان کے زخم اس کی گواہی ہیں۔ اب محبوب کی ذمہ داری ہے ہم پر۔ بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ اٹھانی تو پڑے گی۔ آخر محبت کا جواب ”محبت“ اور ”عقیدت“ سے دینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments