ارشد شریف۔ قتل، وجوہات اور انصاف


معروف صحافی ارشد شریف کو دنیا سے گئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ 23 اکتوبر کی رات نیروبی کینیا میں ان کا قتل ہوا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قتل کینین پولیس نے نشان دہی میں غلطی پر کیا۔ پاکستان میں ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے مختلف آراء، قیاس، تبصرے اور تجزیے ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ ایک عام قیاس اور موقف یہ ہے کہ اپریل میں ہونے والی رجیم چینج کے بعد ارشد شریف نے جس طرح موجودہ حکومت اور دفاعی اداروں کو سخت تر تنقید کا نشانہ بنایا، ان کے قتل کے تانے بانے اسی سے جڑے ہیں۔ حکومت نے ان الزامات کے بعد تحقیقاتی کمیشن بنایا ہے جس کی رپورٹ کی شفافیت اور حاصلات پر ایسے کمشنز کی تاریخ کی بنا پر ظاہری بات ہے کہ اعتبار مشکل ہے۔

ارشد صاحب جس بیانیے کا پرچار کر رہے تھے میں اس سے ذرا بھی متفق نہیں، مگر میں اس کے اظہار رائے اور اختلاف رائے کے بنیادی حق کا احترام کرتی ہوں۔ اور میں نہیں سمجھتی کہ کسی بھی شخص یا ادارے کے پاس اتنی طاقت یا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ مخالف موقف رکھنے والے کی جان لے لے۔

ارشد صاحب کے قتل نے میری اس سوچ کو مزید تقویت دی ہے کہ آپ کا ملک ( اور میرا بھی ) سوائے فوج، مذہبی فرقوں کے سربراہوں، سجادہ نشینوں، تخت نشینوں اور اشرافیہ کے سوا ہر شخص اور طبقے کے لیے ارضی جہنم ہے۔ اقلیتیں، عورتیں، بچے، خواجہ سرا، اور صحافی ( خواہ وہ ملک میں ہو یا بیرون ملک کام کر رہا ہو ) کے لیے غیر محفوظ ہے۔ یقین نہ ہو تو شماریات دیکھ لیں۔

آپ یہاں کھل کر اپنی بات تک نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں دوسروں کی زندگیاں، زبانیں اور خیال کنٹرول کرنے کی بیماری ہے۔ شخصی آزادی صفر ہے۔ منفی صفر۔ اور ارشد شریف کی موت اس مرض کا سمپٹم ہے۔ اس کا علاج ہے جمہوریت۔ جمہوریت کی سب سے سادہ تعریف ”مکالمہ“ ہے۔ دو مخالف نظریات، اعتقادات اور خیالات رکھنے والے افراد کی آپس میں پر امن بات چیت جمہوریت ہے۔

جب کہ ہمارے پورے ملک میں گھر سے لے کر مسجد، محلے، سکول، یونیورسٹی اور حکومتی ایوانوں میں کہیں بھی جمہوریت نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ جمہوریت پڑھانے سے یا قوانین میں ترمیم کر دینے سے نہیں آتی۔ جمہوریت تو سیکھی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں گھر کے اندر ہی جمہوریت نہیں ہے، صنفی امتیاز حد سے گزرا ہوا ہے۔ بیٹے اور بیٹی کی تفریق، زیادہ قابل اور کم ذہین کی تفریق بہت زیادہ ہے۔ ایک خاندان، گھرانے، نسل اور برادری کے باقیوں پر امتیاز، ان کے فیصلے کرنے کے اختیار نے محض طبقاتی تقسیم کے احساس کو نہیں بڑھایا، اس نے جمہوریت کو بھی جڑیں پکڑنے سے روکا ہوا ہے۔ ایک بچے کے پاس باقیوں کے مقابلے میں بہت فرمان بردار، لائق، تمیز دار اور سچے ہونے کا سرٹیفیکٹ اس میں ایسے فسطائی احساسات پیدا کرتا ہے کہ وہ تمام عمر اور کسی کی بات و حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کر پاتا۔

اپنے گھر کے بچوں کو یہ بات سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ کسی خاص جنس، نسل، ڈی این اے، خاندان اور برادری سے تعلق ہونا آپ کو بڑا نہیں بناتا۔ اپنی اولاد اور گھر کے افراد کو بتائیں کہ آپ کے علاوہ اگر کوئی کچھ کہہ رہا ہے، جس کی بات آپ کو اچھی نہیں لگ رہی وہ بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ جب ایک گھر کے افراد مختلف سیاسی نظریات کی بنا پر کوئی بدمزگی پیدا کیے بنا رہنا سیکھ لیں گے تو ڈیموکریسی پروان چڑھے گی۔ ورنہ اس جہنم کے ایندھن میں اور بے شمار ارشد شریف شامل ہوتے رہیں گے۔

اور جہاں تک بات ارشد شریف کی ہے تو آپ دیکھ لیجیے گا اس کو بھی اتنا ہی انصاف ملے گا جتنا جمال خشوگجی کو ملا ہے۔ اس کے پیچھے تو سارے عالم کے انسانی حقوق کی تنظیمیں تھیں، ساری دنیا کا میڈیا اس کے لیے آواز اٹھا رہا تھا مگر طاقت اپنے اصول اور اصول انصاف خود بناتی ہے لہٰذا اگر آپ کو انصاف چاہیے تو حق چھیننے والوں سے زیادہ طاقتور ہونا پڑے گا۔ جس قتل کے پیچھے ریاست اور ریاستی ادارے ہوں ان کو انصاف نہیں ملتا۔ ساہیوال سی ٹی ڈی واقعہ، مہسا امینی کی موت اور جمال خشوگجی کا قتل، مقامی، قومی یا بین الاقوامی، کوئی سطح دیکھ لیں۔ ریاست خود جرم میں ملوث ہو تو انصاف پیدا ہونے سے پہلے مر چکا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments