’اوتار: دی وے آف واٹر‘ کا نو آبادیاتی مطالعہ


قصہ کچھ یوں ہے کہ جیمز کیمرون کی نئی آنے والی فلم ’اوتار: دی وے آف واٹر‘ دیکھتے ہوئے کچھ لوگ منظر کشی میں کھو گئے، کچھ لوگ جیک سلی کے ساتھ جڑ گئے اور کچھ پلاٹ میں ایسے گم ہوئے کہ تین گھنٹے چار منٹ کے لیے اپنا وجود کھو گئے۔ لیکن ایک میں ہوں کہ اس فلم کو دیکھتے ہوئے خلائی مخلوق نہیں دیکھ رہا تھا؛ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ کہانی تو تین صدیاں پرانی ہے بس اس میں کردار اور منظر نئے ڈال دیے گئے ہیں۔ یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں ہے بلکہ یہ تو ہندوستان یا افریقہ کے باسی ہیں۔ آسمان کے آدمی تو آج بھی وہیں ہیں جو اپنی ٹیکنالوجی اور علم سے دوسروں کو مرعوب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لیے ہر کوشش کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ فلم پہلی فلم اوتار کا سیکوئل ہے لیکن اس فلم میں پہلی فلم کے برعکس نو آبادیاتی اثرات زیادہ نظر آتے ہیں۔ زمینی آدمیوں کی آمد ہی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ ان کے خلائی جہازوں کی آمد سے جنگلوں کے جنگل آگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔

فلم کی کہانی کو وقتی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے دوسرا اہم واقعہ ریل کی پٹڑی کو اڑانا اور اس سے اسلحہ اور دوسری اشیاء لوٹنا ہے۔ یہ ایک طرح کا گوریلا حملہ تھا جو کمزور فریق دوبدو لڑائی کی سکت نہ ہونے کے باعث دشمن کے کمزور پہلوؤں پر وار کر کے کئی طرح کے وقتی فوائد حاصل کرتا ہے۔ جیسے دشمن کو کمزور کرنا یا اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانا۔

نو آبادیاتی طاقتیں اپنے وقت کے علم کے مراکز اور علم پھیلانے کے ذرائع پر قابض ہونے کی وجہ سے یہ طے کرتی ہیں کہ کسی واقعے کی کون سی جہت کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اس واقعے سے کس قسم کے عوامی جذبات کو بڑھاوا دیا جائے گا۔ بالکل اسی انداز میں ٹرین لوٹنے کے واقعے کو بنیاد بنا کر فلم میں جیک سلی کے خاندان کو ڈھونڈ کر قتل کرنے کا پلان بنتا ہے۔ ایسے ہی کئی واقعات برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں بھی پیش آئے ان میں ایک مثال ’کاکوری ٹرین ڈکیتی‘ جسے کاکوری سازش بھی کہا جاتا ہے ؛ یہ واقعہ 1925ء میں پیش آیا۔

اگرچہ اس واقعے میں صرف ایک آدمی وہ بھی غیر ارادی طور پر مارا گیا تھا پھر بھی اس واقعے کی قتل عام کے طور پر تشہیر کی گئی اور مجرموں کو پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نوآبادیاتی طاقتوں کے لیے کسی کی موت یا نقصان مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ نوآبادیاتی طاقت کو اپنی اتھارٹی کو چیلنج کسی بھی صورت قبول نہیں ہوتا اور ہر اس انگلی کو توڑ دیا جاتا ہے تو نوآبادیات کی مطلق العنانیت کے خلاف اٹھتی ہے۔

نوآبادیاتی طاقتیں تاریخ میں سب سے زیادہ ظالم و جابر قابض اس لیے ہیں کہ وہ صرف قبضہ نہیں کرتے بلکہ وہ کسی بھی علاقے کے ایکو سسٹم، اس کی معاشرت، اس کی تاریخ، حتی کہ اس کے لاشعور کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ناوی فطرت سے بہت قریب رہتے ہیں۔ ان کے لیے حیوانات و نباتات صرف ایک فطرت کے مظاہر نہیں ہیں بلکہ ان کے غیر نامیاتی یا روحانی وجود کے کل کا نام ہیں روح عصر ’ایوا‘ ان کے ذریعے اپنا آپ ظاہر کرتی ہے۔ زمینی انسان تولکن کے دماغ سے خاص مادے کو نکالنے کے لیے انہیں بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ جیسے کہ ایک جگہ ایک کردار بتاتا ہے کہ اس خاص مادے میں آب حیات کی خصوصیات ہیں، جو اس کا ایک قطرہ پی لیتا ہے اس کی عمر نہیں بڑھتی اور یہ کہ اس کے ایک قطرے کی قیمت 80 ملین ڈالر ہے۔

فلم تو دیکھ لی یہ کامیاب ہے یا ناکام اس کا فیصلہ تو نقاد کریں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ایک فرد اگر دوسروں پر برتری حاصل کر لیتا ہے تو کیا اس کو یہ حق بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ کمزور یا حاشیہ بردار کو اپنے فائدے کے لیے ہر جگہ اور ہر طریقے سے استعمال کر سکتا ہے؟ اگر حق حاصل ہو جاتا ہے تو کس اصول کے تحت حق حاصل ہوتا ہے؟ اگر حق حاصل نہیں ہوتا تو ایسا کرنے کی سزا فطرت کیوں نہیں دیتی؟

جیمز کیمرون کی مجبوری تھی کہ اس نے فلم کو مکمل کرنا تھا اس لیے بہت جلد نوآبادیاتی طاقتوں کو اپنے کیے کی سزا دلوا دی۔ جب کہ زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ ہندوستان اور افریقہ پر نو آبادیاتی طاقتوں کا جبر مابعد نو آبادیاتی ہتھکنڈوں کی صورت میں آج بھی قائم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments