کے ایچ خورشید: باتیں خورشید ملت کی


انیس سو چون 1954 میں برطانیہ سے قانون کی اعلیٰ ترین ڈگری لے کر پاکستان لوٹنے والے بیرسٹر کے ایچ خورشید ایک ماہر قانون دان تھے جو بعد ازاں آزاد جموں وکشمیر کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تاہم ان کی اصل شناخت قائداعظم محمد علی جناح کے ایک قابل اعتماد سیکرٹری کی حیثیت سے تھی۔ ان کی یادداشتوں پر مبنی ”تاریخی مشاہدات و واقعات“ کے عنوان سے چھپنے والی کتاب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کو کے ایچ خورشید کی اہلیہ بیگم ثریا خورشید نے ترتیب دیا جو کہ خود بھی ایک قدآور شخصیت ہیں۔ اس کی وجہ سابق صدر ریاست کی اہلیہ کی حیثیت نہیں بلکہ ذاتی کردار، دیانتداری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے ان کی وابستگی ہے۔

مرحوم کے ایچ خورشید کی سیاسی زندگی کا احاطہ کرتی ہوئی یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے کے ایچ خورشید ( خورشید حسن خورشید ) ان انتہائی پرجوش کشمیریوں میں سے ایک تھے جو ماضی میں جینا چاہتے تھے۔ تاہم اس کتاب کے ذریعے اگر ان کی زندگی بھر کی جدوجہد پر نظر ڈالی جائے تو وہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے سچے عاشق دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان سمیت حاکمیں کے ساتھ کے ایچ خورشید کے اختلافات حقیقی اور ریاست جموں و کشمیر کے لیے ان کے نظریے کی بنیاد پر تھے۔ انہوں نے اپنے لوگوں کے حقوق کا چیمپیئن یا آزادی کی تحریک کا شاہسوار ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا جیسا کہ آزاد جموں و کشمیر میں ان کے ہم عصر سیاسی قائدین تسلسل یہ دعویٰ کرتے چلے آئے تھے۔ وہ قبیلوں، خاندانوں اور برادریوں کے نام پر سیاسی جدوجہد کے قائل نہیں تھے بلکہ خالصتاً نظریاتی آدمی تھے۔

ثریا خورشید لکھتی ہیں کہ خورشید دل کی گہرائیوں سے پاکستانی تھے۔ وہ کشمیری قومیت اور کشمیریت کے حوالے سے بہت جذباتی تھے۔ وہ نہ صرف منگلا ڈیم کے متاثرین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ثابت قدم رہے بلکہ ایسے دیگر کئی معاملات میں مرکزی حکومت کی مداخلت کے جواز پر سوال اٹھاتے رہے۔ بیگم ثریا خورشید نے اس کتاب میں نقل کیا ہے کہ قائداعظم نے ایک بار کہا تھا کہ ”پاکستان میری بہن، میرے سیکرٹری اور میرے ٹائپ رائٹر نے حاصل کیا“ ۔

وہ چیف ایڈیٹر نوائے وقت حمید نظامی کے 1959 میں لکھے گئے ایک ادارتی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ کے ایچ خورشید نے تقسیم ہند کے پرتشدد ترین سالوں میں قائد کے سیکرٹری کی حیثیت سے دن رات محنت کی۔ انہوں نے مسلم لیگ کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی وابستگی، وفاداری اور عزم کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اور بانی پاکستان کی شبانہ روز خدمت کرتے ہوئے انہوں نے ثابت کیا کہ وہ محمد علی جناح کا صحیح انتخاب تھے اور شاید مستقبل میں جموں و کشمیر میں قیادت کے لیے موزوں ترین امیدواروں میں سے ایک تھے۔

سری نگر کے دورہ میں قائد کے ساتھ رہنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں قائد کی طرح ایمانداری، سچائی اور نظم و ضبط پر یقین رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ وکیل کی حیثیت سے وہ پاکستان یا بیرون ملک ایک خوشگوار، خوشحال اور کامیاب زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہیں جموں و کشمیر میں اپنے ہم وطنوں کی غلامی کسی صورت قبول نہ تھی۔ یہی سوچ ان کی سیاسی اٹھان کا باعث بنی اور انہوں نے اپنی ساری زندگی اسی نظریاتی سوچ اور سیاسی جدوجہد کی نذر کر دی

بیگم ثریا خورشید لکھتی ہیں کہ جب بھی کے ایچ خورشید کے اخلاق و اقدار کو للکارا جاتا تو وہ چیلنج کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بول کر اقتدار کی راہداریوں سے نکلنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ 1958 میں انہوں نے کشمیر لبریشن موومنٹ کی سیاست کے طوفانی سالوں کے دوران چار ماہ حراست میں گزارے لیکن کشمیر کاز پر اپنے اصولی موقف پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت اور تحریک آزادی کے بارے میں ان کے موقف کو غلط طور پر ایک آزاد و خود مختار کشمیر کی جانب لے جانے کی دانستہ کوشش سے تعبیر کیا گیا۔ دوران حراست انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ یہ وہ وقت تھا جب ان کے انتہائی قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں نے ان سے علیحٰدگی اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔ ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ حکومت وقت کا اعتماد کھو چکے تھے۔ لیکن وہ جانتے تھے ایک حقیقی جمہوریت پسند کبھی بھی آمروں کا کاسہ لیس نہیں ہو سکتا ۔

خورشید کو ان کے نظریاتی پیروکاروں نے بجا طور پر خورشید ملت کا نام دیا ہے کیونکہ وہ آزاد سرزمین کی پہلی اور واحد آواز تھے جو چاہتے تھے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے تمام حصوں کے عوام کی نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے بنیادی طور پر اس نظریاتی اور انتہائی اہم موقف کا مقصد بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ٹھوس اور جاندار جدوجہد کو یقینی بنانا تھا۔

بحیثیت انسان کے ایچ خورشید ایک عاجز، خوددار اور وفادار انسان تھے۔ لیکن، ایک کشمیری کے طور پر ، وہ اندر اور باہر سے ایک نظریاتی آدمی تھے۔ کے ایچ خورشید کے سیاسی فلسفے اور نقطہ نظر کو ہمیشہ غلط سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ جموں و کشمیر کی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے کے خلاف نہیں تھے لیکن ریاست کے مستقبل کے حوالے سے کشمیریوں پر کسی خاص اقدام کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے سخت مخالف تھے۔ ان کا عزم یہ تھا کہ اولیں طور پر مقبوضہ علاقے کو آزاد کرانے کی کوششیں کی جائیں اور جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے۔

بیگم ثریا خورشید نے اس کتاب کے ذریعے خورشید ملت کے ایچ خورشید کی کشمیریت کے لیے غیر متزلزل حمایت کو بجا طور پر ایک تاریخی دستاویز کی شکل دی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ

کے ایچ خورشید کا خیال یہ تھا چونکہ ریاست جموں و کشمیر کا بڑا حصہ ابھی تک آزاد نہیں ہوا ہے، اس لیے آزاد کشمیر کے سیاستدانوں، حکمرانوں اور عوام کے نمائندوں کو پرتعیش زندگی نہیں گزارنی چاہیے۔ جموں و کشمیر کا آزاد کرایا گیا علاقہ حقیقی طور پر کے ایچ خورشید کے لیے ایک بیس کیمپ تھا۔ وہ بیس کیمپ میں رہتے ہوئے مکمل ریاست کی آزادی کے خواب دیکھنے والوں کے لیے عیش و عشرت اور آسائشوں والی زندگی گزارنے کے خیال سے ہی نفرت کرتے تھے۔

کے ایچ خورشید جب آزاد جموں و کشمیر کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تو ایوان صدر میں ایک عام آدمی کی حیثیت میں سادگی سے رہتے رہے۔ ان کے ہم عصر سیاستدانوں اور اہم حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات کا تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں حکومتی وسائل اور جھنڈے والی سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال ایک معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔ بیگم ثریا خورشید نے لکھا ہے کہ جب وہ صدر ریاست کے عہدے پر فائز تھے تو ایک دن ان کی چار سالہ بیٹی نے جھنڈے والی گاڑی میں سکول جانے کا اصرار کیا۔

انہوں (ثریا خورشید) نے اس کی اجازت دے دی مگر شام کو جب ان کے شوہر اور صدر ریاست کے ایچ خورشید کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے سختی سے منع کر دیا کہ اس واقعے کو دوبارہ نہ دہرایا جائے۔ وہ پوچھتی ہیں کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے کتنے سرکاری عہدیدار اور موجودہ کشمیری رہنما ریاستی وسائل کو سنبھالنے میں اس قدر سخت نظم و ضبط کی پابندی کریں گے؟

یہ کتاب تاریخ کے ان گوشوں سے بھی پردہ اٹھاتی ہے جب قیام پاکستان کے بعد کے ایچ خورشید ریاست کے مستقبل کے حوالے سے قائد اعظم کا اہم پیغام لے کر جموں و کشمیر گئے تو وہاں کے حکمرانوں نے انہیں جیل میں ڈال دیا جس کا قائد کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو بے حد دکھ تھا۔ قائد کی ناگہانی وفات کے وقت کے ایچ خورشید جیل میں تھے۔

کے ایچ خورشید ایک درویش صفت آدمی تھے انہوں نے انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ قائد اعظم کے سیکرٹری اور دو بار آزاد کشمیر کے صدر رہے۔ مگر ان کے نام پر کوئی جائیداد نہیں تھی۔ ان کا سفر آخرت بھی ان کے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار کر گیا۔ میرپور میں ایک اجلاس میں شرکت کے بعد لاہور اپنے گھر جانے کے لیے نکلے تو ایک تنظیمی ساتھی سے لفٹ لے کر گجرات تک پہنچے اور وہاں سے لاہور کی ایک مسافر ویگن پر سوار ہو گئے۔ اس گاڑی کا گوجرانوالہ کے قریب حادثہ ہو گیا اور اس حادثے میں کے ایچ خورشید بھی سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ اس وقت ان کی جیب میں صرف 37 روپے تھے۔ جبکہ ان کا جنازہ بھی کرائے کے گھر میں رکھا گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان پر اپنا سایہ رحمت ڈالے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments